فرخندہ شمیم ۔۔۔ اضطراب (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

اضطراب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بحر کے تلاطم پر
جب ہوائیں شوریدہ 
آسماں گرفتہ ہو
بادلوں میں ہلچل ہو
اور زمین لرزیدہ
جانے کیوں یہ لگتا ہے 
ساری بے کلی ان کی
اضطراب میرا ہے

وحشتوں کے گھنگرو پر
میری آنکھ کی پتلی
رقص کرتی رہتی ہے 
 بے گرفت لمحوں پر کسمساتی رہتی ہے 
اضطراب جنتی ہے 
بے نشان کروٹ میں 

آنکھ سے. نکلتی ہے
کان میں اترتی ہے
اور زباں سے کہتی ہے 
ہاں بساطِدنیا پر زندگی تو مہرہ ہے
بے ثبات منظر میں 
آندھیوں کے سینے پر
کانپتا بسیرا ہے
روشنی اندھیرا ہے
اب تو بیکلی مری
اس طرح تڑپتی ہے
جیسے ایک دلہن سے
بیوگی لپٹتی ہے

Related posts

Leave a Comment