رضوان احمد ۔۔۔ اردو شاعری کا شہابِ ثاقب: اطہر نفیس

 کنور اطہر علی خاں کی پیدائش علی گڑھ کے قبصہ پٹل کے ایک معزز خاندان میں22فروری سنہ 1933کو ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہی ہوئی۔علی گڑھ کے قصبہ پٹل سے ہجرت کر کے وہ سنہ 1949میں کراچی چلے گئے تھے او وہاں مشہور اخبار ” جنگ “ کے انتظامی شعبے سے وابستہ ہوئے او ترقی کر کے چیف اکاؤنٹنٹ کے عہدے پر پہنچے۔ اطہر نفیس نے ایک منفرد شاعر کی حیثیت سے ادب میں اپنا مقام بنایا۔ اطہر نفیس کو کم وقت ملا اور صرف 47برس…

Read More

رضوان احمد … خمار بارہ بنکوی کی دسویں برسی پر (18 فروری 2009)

خمار بارہ بنکوی کا انتقال 20فروری 1999ءکو ہوا تھا،لیکن جن اشخاص نے ان کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے یا جنہوں نے ان کو مشاعروں میں سنا ہے وہ ان کی یاد سے ایک دن کے لیے بھی دامن کش نہیں ہو سکے ہوں گے۔  اگرچہ وہ بارہ بنکی کے ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا نام محمد حیدر خان تھا لیکن 18سال کی عمر سے ہی انہوں نے شاعری شروع کر دی اور اس کے بعد وہ صرف خمار بارہ بنکوی ہی رہ گئے۔ خمار…

Read More

خالد حسن ۔۔۔۔ فقیر منش مصور صادقین، بیس سال بعد (26 ستمبر 2007)

صادقین کی موت کو 20 سال ہوگئے۔ وہ اگر زندہ ہوتے تو اس وقت 77 برس کے ہوتے۔ جب 1987ء میں ان کا انتقال ہوا تو لوگوں کو ان کی موت سے زیادہ اس بات پر تعجب ہوا تھا کہ آخر وہ اتنا عرصہ زندہ کیسے رہ لیے۔انھوں نے اپنی زندگی کو بھی اسی شدت، اسی جوش سے گزارا تھا جس شدت اور جوش و جذبے سے وہ مصوری اور شاعری کیا کرتے تھے۔ صادقین نے اپنی شمعِ زندگی کو دونوں سروں سے جلایا تھا، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ اگر صیاد یہ بجلی نشیمن پہ گری ہو گی

اگر صیاد یہ بجلی نشیمن پہ گری ہو گی دھواں تنکوں سے اٹھے گا چمن میں روشنی ہو گی ستم گر حشر میں وہ بھی قیامت کی گھڑی ہو گی ترے دامن پہ ہوگا ہاتھ دنیا دیکھتی ہو گی مجھے شکوے بھی آتے ہیں مجھے نالے بھی آتے ہیں مگر یہ سوچ کر چپ ہوں کی رسوا عاشقی ہو گی تو ہی انصاف کر جلوہ ترا دیکھا نہیں جاتا نظر کا جب یہ عالم ہے تو دل پر کیا بنی ہو گی اگر آ جائے پہلو میں قمر وہ ماہِ…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ کیا سے کیا یہ دشمن جاں تیرا پیکاں ہو گیا

کیا سے کیا یہ دشمنِ جاں تیرا پیکاں ہو گیا تھا کماں تک تیر دل میں آ کے ارماں ہو گیا باغباں کیوں سست ہے غنچہ و گل کی دعا اک مرے جانے سے کیا خالی گلستان ہو گیا کیا خبر تھی یہ بلائیں سامنے آ جائیں گی میری شامت مائلِ زلفِ پریشاں ہو گیا کچھ گلوں کو ہے نہیں میری اسیری کا الم سوکھ کر کانٹا ہر اک خارِ گلستاں ہو گیا ہیں یہ بت خانے میں بیٹھا کر رہا کیا کیا قمر ہم تو سنتے تھے تجھے ظالم…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ سرِ شام تجھ سے ملنے ترے در پہ آ گئے ہیں

سرِ شام تجھ سے ملنے ترے در پہ آ گئے ہیں یہ وہیں ہیں لوگ شاید جو فریب کھا گئے ہیں میں اگر قفس سے چھوٹا تو چلے گی باغباں سے جہاں میرا آشیاں تھا وہاں پھول آ گئے کوئی ان سے جا کہ کہہ دے سرِ بام پھر تجلی جنہیں کر چکے ہو بے خود انھیں ہوش آ گئے ہیں یہ پتہ بتا رہے ہیں رہِ عشق کے بگولے کہ ہزاروں تم سے پہلے یہاں خاک اڑا گئے ہیں شبِ ہجرِ شمع گل ہے مجھے اس سے کیا تعلق…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ دل انھیں کیا دیا قرار نہیں

دل انھیں کیا دیا قرار نہیں عشق کو حسن ساز گار نہیں دل کے اوپر نگاہِ یار نہیں تیر منت کشِ شکار نہیں اب انھیں انتظار ہے میرا جب مجھے ان کا انتظار نہیں شکوۂ بزمِ غیر ان سے عبث اب انھیں اپنا اعتبار نہیں منتظر شام کے رہو نہ قمر ان کے آنے کا اعتبار نہیں

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ کچھ تو کہہ دے کیا کریں اے ساقیِ مے خانہ ہم

کچھ تو کہہ دے کیا کریں اے ساقیِ مے خانہ ہم اپنی توبہ توڑ دیں یا توڑ دیں پیمانہ ہم دل عجب شے ہے یہ پھر کہتے ہیں آزادانہ ہم چاہے جب کعبہ بنا لیں چاہے جب بت خانہ ہم داستانِ غم پہ وہ کہتے ہیں یوں ہے یوں نہیں بھول جاتے ہیں جو دانستہ کہیں افسانہ ہم اپنے در سے آ جائے ساقی ہمیں خالی نہ پھیر مے کدے کی خیر ہو آتے نہیں روزانہ ہم مسکرا دیتا ہے ہر تارا ہماری یاد پر بھول جاتے ہیں قمر اپنا…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔۔ کیونکر رکھو گے ہاتھ دلِ بے قرار پر

کیونکر رکھو گے ہاتھ دلِ بے قرار پر میں تو تہِ مزار ہوں تم ہو مزار پر یہ دیکھنے، قفس میں بنی کیا ہزار پر نکہت چلی ہے دوشِ نسیم بہار پر گر یہ ہی جور و ظلم رہے خاکسار پر منہ ڈھک کے روئے گا تو کسی دن مزار پر ابرو چڑھے ہوئے ہیں دلِ بے قرار پر دو دو کھنچی ہوئی ہیں کمانیں شکار پر رہ رہ گئی ہیں ضعف سے وحشت میں حسرتیں رک رک گیا ہے دستِ جنوں تار تار پر شاید چمن میں فصلِ بہاری…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔

حسن سے رسوا نہ ہو گا اپنے دیوانے کا نام شمع رو دے گی مگر نہ لے گی پروانے کا نام ہو گئی توبہ کو اک مدت کسے اب یاد ہے اصطلاحاً ہم نے کیا رکھا تھا پیمانے کا نام میتِ پروانہ بے گور و کفن دیکھا کئے اہلِ محفل نے لیا لیکن نہ دفنانے کا نام یہ بھی ہے کوئی عیادت دو گھڑی بیٹھے نہ وہ حال پوچھا چل دیے گھر کر گئے آنے کا نام لاکھ دیوانے کھلائیں گل چمن کہہ دے گا کون عارضی پھولوں سے بدلے…

Read More