جیون کی تکمیل کے اندر
ہم بھی ہیں تحویل کے اندر
ہم اندر سے خالی کب ہیں
سب کچھ ہے زنبیل کے اندر
بات کی گرہیں کھول رہے ہیں
کیا ہے اس تفصیل کے اندر
بولتی مٹی کتنا ڈھونڈیں
کیا کچھ ہے تمثیل کے اندر
اس نقطے کو کب سمجھیں گے
عزت ہے تذلیل کے اندر
پانی چمک رہا ہے آصف
شام ڈھلی ہے جھیل کے اندر
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...