ڈاکٹر شفیق آصف ۔۔۔ جب لمحوں نے لکھی رات

جب لمحوں نے لکھی رات قریہ قریہ پھیلی رات تارا تارا دھول ہی دھول اُتری ہے یہ کیسی رات دل میں گہری گہری سوچ فکر میں سوئی سوئی رات پھر لوگوں نے دیکھے خواب جب بھی دن نے اوڑھی رات دن پر کالک ملتی ہے غم سے بوجھل میلی رات جب آصف بچھڑی تھی شام ساتھ لپٹ کے روئی رات

Read More

ہے میرے دل کے آئینے میں اک تصویر مٹی کی ۔۔۔  شفیق آصف

ہے میرے دل کے آئینے میں اک تصویر مٹی کی مِرے مٹی کے خوابوں کو ملی تعبیر مٹی کی بھٹکتےپھر رہےہیں ہم نہ جانےکن جزیروں میں خود اپنے پاؤں میں ڈالےہوئے زنجیر مٹی کی تکلف برطرف آنکھوں میں میری اِک ذرا جھانکو وہاں تُم کو نظر آئے گی اِک تصویر مٹی کی اُبھرنا اور رنگوں میں اُتر آنا دھنک بن کر یہ اندازِ محبت ہے نئی تفسیر مٹی کی مجھے اپنوں سے رہتا ہے شکستِ فاش کا خطرہ مِرے سب تِیر مٹی کے، مری شمشیر مٹی کی محبت خاک کے…

Read More

ڈاکٹر شفیق آصف ۔۔۔۔۔۔ شبِ غم جو سورج اُگانے لگا ہے

شبِ غم جو سورج اُگانے لگا ہے وہ خوابوں سے مجھ کو جگانے لگا ہے جو خود ایک دن کوڑیوں میں بکا تھا وہ اب میری قیمت لگانے لگا ہے یہاں حال جس سے بھی پوچھا ہے میں نے وہی اک کہانی سنانے لگا ہے وہ مہتاب جس کا ہے اُس کا رہے گا تو اپنا دیا کیوں بجھانے لگا ہے جو ناراض تھا آسمانوں سے آصف وہ ٹھوکر سے مٹی اُڑانے لگا ہے

Read More

ڈاکٹڑ شفیق آصف ۔۔۔۔۔۔ چھا گئی رات شام سے پہلے

چھا گئی رات شام سے پہلے کیا ہوئی مات شام سے پہلے اک ملاقات خواب میں ممکن اک ملاقات شام سے پہلے کچھ مناجات رات کو ہوں گی کچھ مناجات شام سے پہلے مل گیا دن میں وہ ستارہ نما بن گئی بات شام سے پہلے ڈھونڈتے ہیں دیے شفیق آصف کون تھا ساتھ شام سے پہلے

Read More

ڈاکٹر شفیق آصف ۔۔۔۔۔ آندھیوں سے بادباں جب پھٹ گئے

آندھیوں سے بادباں جب پھٹ گئے ہم تلاطم کے مقابل ڈٹ گئے جگمگاتے کس طرح وہ آئنے موسموں کی گرد سے جو اٹ گئے دائرہ کتنا بڑھایا جائے اب رقص کرنے والے پائوں کٹ گئے پتہ پتہ رُت بکھرنے لگ گئی جن کے سائے گھٹ گئے، وہ کٹ گئے پائوں میں کیا ڈگمگائی ہے زمین اپنی اپنی راہ سے سب ہٹ گئے اب کہاں پہچان ممکن ہے شفیق آئنہ ٹوٹا تو ہم بھی بٹ گئے

Read More

ڈاکٹر شفیق آصف ۔۔۔۔۔ جیون کی تکمیل کے اندر

جیون کی تکمیل کے اندر ہم بھی ہیں تحویل کے اندر ہم اندر سے خالی کب ہیں سب کچھ ہے زنبیل کے اندر بات کی گرہیں کھول رہے ہیں کیا ہے اس تفصیل کے اندر بولتی مٹی کتنا ڈھونڈیں کیا کچھ ہے تمثیل کے اندر اس نقطے کو کب سمجھیں گے عزت ہے تذلیل کے اندر پانی چمک رہا ہے آصف شام ڈھلی ہے جھیل کے اندر

Read More