شفیق آصف ۔۔۔ سورج کا عکس چھاؤں کی جانب نہ ہو سکا

سورج کا عکس چھاؤں کی جانب نہ ہو سکا ہم سے سفر میں ایسا مناسب نہ ہو سکا کل رات ابرِ غم کے حوالے نہ مِل سکے کل رات بھی شُمارِ کواکب نہ ہو سکا راسخ تھا اِس طرح تُو مِرے لا شعور میں دشمن مِرے شعور پہ غالب نہ ہو سکا لُوٹی ہیں اُس نے پھول سے چہروں کی رونقیں اُس جیسا کوئی وقت کا غاصب نہ ہو سکا آصف میں ڈٹ گیا تھا مقابل کے سامنے پھر بھی ستم کی سمت وہ راغب نہ ہو سکا

Read More

شفیق آصف

بچھڑیں گے تم سے اس کا تو خدشہ رہا مگر ترکِ تعلقات کا وہم و گماں نہ تھا

Read More

ہے میرے دل کے آئینے میں اک تصویر مٹی کی ۔۔۔  شفیق آصف

ہے میرے دل کے آئینے میں اک تصویر مٹی کی مِرے مٹی کے خوابوں کو ملی تعبیر مٹی کی بھٹکتےپھر رہےہیں ہم نہ جانےکن جزیروں میں خود اپنے پاؤں میں ڈالےہوئے زنجیر مٹی کی تکلف برطرف آنکھوں میں میری اِک ذرا جھانکو وہاں تُم کو نظر آئے گی اِک تصویر مٹی کی اُبھرنا اور رنگوں میں اُتر آنا دھنک بن کر یہ اندازِ محبت ہے نئی تفسیر مٹی کی مجھے اپنوں سے رہتا ہے شکستِ فاش کا خطرہ مِرے سب تِیر مٹی کے، مری شمشیر مٹی کی محبت خاک کے…

Read More