ڈاکٹر شفیق آصف ۔۔۔۔۔ آندھیوں سے بادباں جب پھٹ گئے

آندھیوں سے بادباں جب پھٹ گئے ہم تلاطم کے مقابل ڈٹ گئے جگمگاتے کس طرح وہ آئنے موسموں کی گرد سے جو اٹ گئے دائرہ کتنا بڑھایا جائے اب رقص کرنے والے پائوں کٹ گئے پتہ پتہ رُت بکھرنے لگ گئی جن کے سائے گھٹ گئے، وہ کٹ گئے پائوں میں کیا ڈگمگائی ہے زمین اپنی اپنی راہ سے سب ہٹ گئے اب کہاں پہچان ممکن ہے شفیق آئنہ ٹوٹا تو ہم بھی بٹ گئے

Read More