یہاں منصفی کی روایت نہیں
ہماری یہ پہلی شکایت نہیں
نمک والی لذت الگ چیز ہے
یہ شیرینی کرتی کفایت نہیں
مداوا بھی کچھ داد کے ساتھ ساتھ
کہ احوالِ دل تھا، حکایت نہیں
ہمکتے ہوئے دل میں ہجرت کا ڈر
ابھی سرسری ہے، سرایت نہیں
فراموش گاری کا سیلِ رواں
کسی سے بھی کوئی رعایت نہیں
مبارک تری مصلحت تجھ کو، دوست!
دعا چاہیے بس، حمایت نہیں
مصیبت میں مت پڑ کہ میں اس قدر
طلب گارِ رشد و ہدایت نہیں
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...