آشفتہ چنگیزی ۔۔۔۔۔ گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے​

گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے​ تمام دریا کسی روز ڈوب جائیں گے ​ دعائیں، لوریاں، مائوں کے پاس چھوڑ آئے​ بس ایک نیند بچی ہے، خرید لائیں گے ​ سفر تو پہلے بھی کتنے کیے، مگر اس بار​ یہ لگ رہا ہے کہ تجھ کو بھی بھول جائیں گے ​ الاؤ ٹھنڈے ہیں، لوگوں نے جاگنا چھوڑا​ کہانی ساتھ ہے لیکن کسے سنائیں گے ​ سنا ہے، آگے کہیں سمتیں بانٹی جاتی ہیں ​ تم اپنی راہ چنو، ساتھ چل نہ پائیں گے​ ہمارے نقش مٹانا…

Read More

کب لوٹو گے ۔۔۔۔۔۔ آشفتہ چنگیزی

کب لوٹو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نہ کہتی تھی! تم چلے جائو گے اور تم چلے بھی گئے گرمیوں کی مختصر راتیں کس قدر طویل ہونے لگی ہیں چھڑکائو سے اٹھی آنگن کی سوندھی خوشبو رات کی رانی، بیلا اور جوہی یہ سب بھی تم اپنے ساتھ ہی لیتے گئے نومبر ختم پر ہے ٹھٹھرے دسمبر کی پہاڑ راتیں آنے والی ہیں کھٹی املیاں کھاتی، چہل کرتی پڑوسنوں کو اون کے گولے اور سلائیاں لیے دھوپ سینکتے دیکھتی رہتی ہوں نرملا کو نواں مہینہ لگا ہے اس کا پتی اسے روز…

Read More