کب لوٹو گے ۔۔۔۔۔۔ آشفتہ چنگیزی

کب لوٹو گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نہ کہتی تھی!
تم چلے جائو گے
اور تم چلے بھی گئے

گرمیوں کی مختصر راتیں
کس قدر طویل ہونے لگی ہیں
چھڑکائو سے اٹھی
آنگن کی سوندھی خوشبو
رات کی رانی، بیلا اور جوہی
یہ سب بھی
تم اپنے ساتھ ہی لیتے گئے
نومبر ختم پر ہے
ٹھٹھرے دسمبر کی پہاڑ راتیں آنے والی ہیں
کھٹی املیاں کھاتی، چہل کرتی
پڑوسنوں کو
اون کے گولے اور سلائیاں لیے
دھوپ سینکتے دیکھتی رہتی ہوں
نرملا کو نواں مہینہ لگا ہے
اس کا پتی اسے روز اسپتال لے جاتا ہے
اور میں ۔۔۔۔
ماہواری کے کپڑے پھینکتے 
پھینکتے پھینکتے تنگ آ چکی ہوں

موسموں کی سوغات لے کر
لکھو!
کب تک لوٹو گے?

Related posts

Leave a Comment