بانی ۔۔۔۔۔ تنہا تھا مثلِ آئنہ تارہ، سرِ اُفق

تنہا تھا مثلِ آئنہ تارہ ، سرِ اُفق اُٹھتی نہ تھی نگاہ دوبارہ ، سرِ افق سب دم بخود پڑے تھے خسِ جسم و جاں لیے لہرا رہا تھا کوئی شرارہ سرِ افق اک موجِ بے پناہ میں ہم یوں اُڑے پھرے جیسے کوئی طلسمی غبارہ سرِ افق کب سے پڑے ہیں بند زمان و مکاں کے در کوئی صدا نہ کوئی اشارہ سرِ افق سب کچھ سمیٹ کر مرے اندر سے لے گیا اک ٹوٹتی کرن کا نظارہ سرِ افق

Read More

بانی ۔۔۔۔ شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے

شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے در پر مرے یہ صبح کا پہلا عتاب ہے آواز کوئی سر سے گزرتی چلی گئی میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے ہر گز یہ سچ نہیں کہ لگن خام تھی مری ہاں کچھ بھی جو کہے جو یہاں کامیاب ہے شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے اک لمحہ جس کے سینے میں کچھ پل رہا ہے کھوٹ بانی ابھی وہ اپنے لیے خود عذاب ہے

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف

سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف مری ایک ذاتِ دگر کی طرف بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف مرے واسطے جانے کیا لائے گی گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف کنارہ ہی کٹنے کی سب دیر تھی پھسلتے گئے ہم بھنور کی طرح کوئی درمیاں سے نکلتا گیا نہ دیکھا کسی ہم سفر کی طرف تری دشمنی خود ہی مائل رہی کسی رشتۂ بے ضرر کی طرف رہی دل میں حسرت کہ بانی چلیں کسی منزلِ پُر خطر کی طرف

Read More