تنہا تھا مثلِ آئنہ تارہ ، سرِ اُفق
اُٹھتی نہ تھی نگاہ دوبارہ ، سرِ افق
سب دم بخود پڑے تھے خسِ جسم و جاں لیے
لہرا رہا تھا کوئی شرارہ سرِ افق
اک موجِ بے پناہ میں ہم یوں اُڑے پھرے
جیسے کوئی طلسمی غبارہ سرِ افق
کب سے پڑے ہیں بند زمان و مکاں کے در
کوئی صدا نہ کوئی اشارہ سرِ افق
سب کچھ سمیٹ کر مرے اندر سے لے گیا
اک ٹوٹتی کرن کا نظارہ سرِ افق
Related posts
-
محسن اسرار ۔۔۔ گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا
گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا برا... -
احمد فراز ۔۔۔ زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے... -
فانی بدایونی ۔۔۔ آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ دردِ دل...