محمد یوسف راسخ ۔۔۔ حسن اچھا ہے محمد کا کمال اچھا ہے  

حسن اچھا ہے، محمد کا کمال اچھا ہے

جو خدا کو بھی ہے پیارا وہ جمال اچھا ہے

بزمِ کونین مرتب ہوئی تیری خاطر

وقف ہے تیرے لئے اس میں جو مال اچھا ہے

مجھ سے پوچھے تو کوئی تیرے غلاموں کا عروج

بادشاہوں سے بھی رتبے میں بلال اچھا ہے

غم اٹھانے کی ہے عادت مری طبعِ ثانی

میں تو کہتا ہوں کہ دنیا میں ملال اچھا ہے

قصۂ طور سے واقف ہے زمانہ سارا

کوئی کس منہ سے کہے شوقِ جمال اچھا ہے

بزم میں دیکھ کے حسرت سے کسی کو چپ ہوں

در حقیقت یہی اندازِ سوال اچھا ہے

جس میں اک دن بھی میسر ہو ملاقات کی رات

میرے نزدیک تو وہ ماہ وہ سال اچھا ہے

لطف دیتا ہے مجھے تیرا تصور شب غم

سچ کہا کرتے ہیں اچھوں کا خیال اچھا ہے

جب سے دیکھے ہیں تمہارے لب و ابرو ہم نے

نہ کہا ہے نہ کہیں گے کہ ہلال اچھا ہے

تجھ سے ہٹ کر کہیں پڑتی ہی نہیں میری نظر

یوں تو یوسف کا بھی ہونے کو جمال اچھا ہے

اس نے دیکھا ہی نہیں قامتِ زیبا تیرا

جو یہ کہتا ہو کہ گلشن میں نہال اچھا ہے

پھر وہی ذکر ہے اربابِ کرم کا راسخ

ہم سمجھتے ہیں یہ اندازِ سوال اچھا ہے

Related posts

Leave a Comment