جوش ملسیانی ۔۔۔ چھوڑ دو غصے کی باتیں، اشتعال اچھا نہیں

چھوڑ دو غصے کی باتیں، اشتعال اچھا نہیں
اتنا رنج، اتنا گِلہ، اتنا ملال اچھا نہیں

خستگی بھی شرط ہے اُن کی نوازش کے لیے
حال اچھا ہے اُسی کا جس کا حال اچھا نہیں

گردشِ تقدیر کا چکر وہی جاری رہا!
کیا مرے طالع میں، یارب! کوئی سال اچھا نہیں

اب تمھاری چارہ سازی کا بھرم کھلنے کو ہے
لوگ کہتے ہیں: مریضِ غم کا حال اچھا نہیں

مر گئے جو راہِ اُلفت میں، مسیحا ہو گئے
کون کہتا ہے محبت کا مآل اچھا نہیں

بدنصیبی، بدنصیبی ہے مگر اتنی بھی کیا!
کوئی دن، کوئی مہینا، کوئی سال اچھا نہیں

یادِ ایامِ جوانی اک مصیبت ہے مجھے
خواب اچھا تھا مگر اس کا خیال اچھا نہیں

جس نے فریاد و فغاں کو بارہا ٹھکرا دیا
ہائے پھر کہنا پڑا اُس سے کہ حال اچھا نہیں

عمر رفتہ پر کفِ افسوس کیوں مَلتے ہو جوش!
جانے والی چیز کا اتنا ملال اچھا نہیں

Related posts

Leave a Comment