حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔ سخن کے نِت نئے میں رنگ و بُو نکالتا ہوں

سخن کے نِت نئے میں رنگ و بُو نکالتا ہوں
خموشیوں سے تری گفتگو نکالتا ہوں

ہر ایک ہاتھ میں پتھر دکھائی دیتا ہے

میں اپنے گھر سے قدم جب کبھو نکالتا ہوں

پھر اُس کے بعد میں اپنے لئے بھی بچتا نہیں

اگر میں دل سے تری آرزو نکالتا ہوں

بھلا نہ پایا جُنوں میں بھی روزگار کا غم

میں خارِ دشت سے کارِ رفو نکالتا ہوں

برائے وسعتِ ملکِ سخن ، بنامِ سخن

میں اپنا لشکرِ فن چارسو نکالتا ہوں

سکھانا پڑگیا فرہاد کو یہ فن آخر

یہ اُس کی ضد تھی کہ میں آبجو نکالتا ہوں

میں روز پھاڑتا ہوں لکھ کے سرخ خط تجھ کو

میں روز اپنے بدن سے لہو نکالتا ہوں

جہانِ شعر میں ممتاز اس لئے بھی ہوں میں

غزل بھی تیری طرح خوب رُو نکالتا ہوں

Related posts

Leave a Comment