آنکھ کا پردۂ نم ناک ہے خاک
از زمیں تا سرِ افلاک ہے خاک
یوں تو ہر آن لہو سا چھلکے
دل کہ درپردۂ صد چاک ہے خاک
آدمی کا ہوئی پیراہنِ جاں
کس قدر سرکش و چالاک ہے خاک
ہر قدم رہتی ہے زنجیر بپا
کیوں تری زلف کا پیچاک ہے خاک
ایک تو ہے کہ ہَوا ہے کوئی
ایک میں ہوں، مری پوشاک ہے خاک
پائوں سے نکلے تو سر تک پہنچے
کیا سمجھتے ہو میاں، خاک ہے خاک
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...