میں رقص کرتا ہوا،آئنے بناتا ہوا
گزرگیا تری گلیوں سے مسکراتا ہوا
یہ خالی گھر ہے یہاں کوئی بھی نہیں رہتا
بس ایک سایہ سا پھرتا ہے لڑکھڑاتا ہوا
پلٹ کے آیا تو چہرے پہ دن اتر آیا
چراغ بن کے گیا تھا جو جگمگاتا ہوا
میں دل کی کہتا رہا اس کے روبرو پیہم
وہ بات سنتا ہوا اور سر ہلاتا ہوا
وہ ہنس رہا تھا کہ اِس میں تو اس کا ذکر نہیں
میں روپڑا تھا اسے داستاں سناتا ہوا
تمام رات مرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
زعیم وہ مجھے اپنی غزل سناتا ہوا
Related posts
-
اختر شمار ۔۔۔ خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں
خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں ہماری ہو گی مگر داستاں کہیں نہ... -
زبیر فاروق ۔۔۔ اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا
اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا غیر نے جو کہا سنا ہو گا... -
عباس علی شاہ ثاقب ۔۔۔۔ ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو
ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو جہالت کی یہاں افراط دیکھو فسادی ہاتھ میں قانون سازی علم...