لطیف ساحل … دل مرا دستِ ریزہ کار میں تھا

دل مرا دستِ ریزہ کار میں تھا
جو کرے اس کے اختیار میں تھا

میں نے بھی سر پہ خاک ڈالی تھی
وہ بھی اڑتے ہوئے غبار میں تھا

اک نئی صبح ڈھونڈ لائی مجھے
میں ابھی رات کے حصار میں تھا

مجھ کو بھی معجزے کی خواہش تھی
وہ بھی ‘ہونے’ کے انتظار میں تھا

تو ہی لایا شمار میں مجھ کو
میں ہمیشہ سے بے شمار میں تھا

وہ بظاہر تھی ایک تنہا بیل
اک جہاں اس کے برگ و بار میں تھا

Related posts

Leave a Comment