کسی کو پا کے بہت خوش تھا پھر جو کھونا پڑا
بڑے سکون میں تھا ، بے قرار ہوا پڑا
اسے بھی اشکوں کو پلکوں میں جب پرونا پڑا
ہزار ضبط کیا بے نقاب ہونا پڑا
نہیں ہے عشق کسی رت کسی فضا کا اسیر
یہ بیج فصلِ محبت کا تھا ، جو بونا پڑا
سمندروں نے بھی ہم سے تو کج روی برتی
تو خود کو ساحلِ امید پر ڈبونا پڑا
گزر گئی ہے ترے بعد بھی مگر جاناں
یہ بارِ زیست اکیلے ہی مجھ کو ڈھونا پڑا
کسی کو مل گئی منزل کوئی سفر میں رہا
کسی کو ہنسنا پڑا اور کسی کو رونا پڑا
ٹھہر گیا ہے ترا انتظار آنکھوں میں
میں جاگ جاگ کے جب تھک گیا تو سونا پڑا
جو دل کے داغ تھے عرفاں چھپا نہیں پایا
وہ بے بسی تھی کہ اشکوں سے ان کو دھونا پڑا