سننے والا میں کسی تازہ بہانے کا نہیں
نامرادانہ اب اس شہر سے جانے کا نہیں
بات جو سہج بنائی تھی وہ بے ڈھب نکلی
لفظ جو چن کے بٹھایا تھا ٹھکانے کا نہیں
کارِ بے کار کی تکرار لگے میل ملاپ
مسئلہ اور ہے کچھ، نِبھنے نبھانے کا نہیں
دل اگر اپنی سبک چال حریفانہ چلے
دور تک کوئی مقابل نظر آنے کا نہیں
تم یہ کس زعم میں پھسلے تھے مِری مُٹھی سے
گر پڑی چیز پلٹ کر میں اٹھانے کا نہیں
اس کھنڈر پر نہیں رکنا،مِری منزل ہے محل
خواب شہزادی کا دیکھا تھا، خزانے کا نہیں