بے معنی ۔۔۔۔ جون ایلیا

بے معنی
۔۔۔۔۔
ہے مری ذات اِک زیاں کی دکان
مجھ کو اپنا حساب کیا معلوم
جب مجھے بھی نہیں کوئی احساس
تم کو میرا عذاب کیا معلوم

ہر کسی سے بچھڑ گیا ہوں مَیں
کون دل میں مرا ملال رکھے
شہرِ ہستی کا اجنبی ہوں مَیں
کون آخر مرا خیال رکھے

رایگانی ہے زندگی میری
مَیں تو خود میں بھی رایگاں ہی گیا
بے گمانی سی بے گمانی ہے
مجھ سے تو خود مرا گماں ہی گیا

کوئی بھی مجھ کو آسرا نہ ملا
مَیں بھٹکتا رہا ہوں شہروں میں
زندگی تشنگی کا دریا ہے
ہے فقط گرد دِل کی لہروں میں

وصل کے سلسلے تو کیا اب تو
ہجر کے سلسلے ہیں بے معنیٰ
کوئی رشتہ ہی جب کسی سے نہیں
دل کے سارے گلے ہیں بے معنیٰ

روز و شب اَب یونہی گزرتے ہیں
کوئی قصہ ہو جان و جاناں کا
کربِ بے ماجرائی سہتا ہوں
کچھ تو ہو ماجرا دل و جاں کا

ہر نفس ہے کسی مفر کی تلاش
مجھ کو اپنے حصار میں لے لو
میرا اب خود پہ اختیار نہیں
تم مجھے اختیار میں لے لو

میرے اندر بھی دل کے دَر وَا ہوں
یعنی میرے بھی کوئی معنیٰ ہوں

Related posts

Leave a Comment