عباس رضوی

وہ نیند آئے کہ خوابوں کا در کھلا رہ جائے
حصارِ شب میں ستاروں کا سلسلہ رہ جائے

چلوں تو مڑ کے نہ دیکھوں کسی صدا کی طرف
ستارہِ سحری راہ پوچھتا رہ جائے 

ہوا چلے تو بجھاتی ہوئی دلوں کو چلے
بس اک چراغ مگر اس کے نام کا رہ جائے 

صبا بھی ساتھ نہ آئے جو پار اُتروں میں
جو ڈوبنا ہو تو دریا پکارتا رہ جائے 

میں جاگتا ہوں جسے دیکھنے کی حسرت میں
وہ خواب میری طرف یوں ہی دیکھتا رہ جائے

Related posts

Leave a Comment