عباس رضوی ۔۔۔ مثالِ موجِ صبا اعتبار اپنا نہیں

مثالِ موجِ صبا اعتبار اپنا نہیں کہ دل تو اپنا ہے پر اختیار اپنا نہیں یہ برگ و بار، یہ سرو و سمن اُسی کے ہیں کوئی گلاب سرِ شاخسار اپنا نہیں نہ منزلوں کی خبر ہے، نہ کارواں ہے کوئی مگر قیام سرِ رہ گُذار اپنا نہیں اُنھی کا خوف اُنھی سے خطر جو اپنے ہیں امید ہے تو اُسی سے ہزار اپنا نہیں گئے وہ دن کہ ہمی پیاس تھے ہمی شبنم نہ جانے کس کا ہے اب انتظار، اپنا نہیں یہ اور بات کہ شامل غبارِ راہ…

Read More

عباس رضوی ۔۔۔ اس خرابے کو بہرحال فنا ہونا ہے

Read More

قرمزی راتوں کا جادو ۔۔۔ عباس رضوی

قرمزی راتوں کا جادو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرمزی راتوں کا جادو خواہشوں کو بال و پر دیتا ہے نغمے کو ہوا کے پائوں کی زنجیر کر دیتا ہے اور پھر ہر نَفَس کو رنگ ہر احساس کو خوشبو کی خلعت نذر کرتا ہے تھرکتی رقص کرتی ساعتوں کو وصل کا پیغام دیتا ہے (یہی آتش فشاں لمحے ہماری خواب گاہوں کو ہماری خواہشوں سے گرم رکھتے ہیں) خیالوں پر کمندیں ڈالتا ہے اَدھ کِھلے غنچوں کے ہاتھوں میں چھلکتے جام دیتا ہے دلوں کو مضطرب کرتا ہے اور آنکھوں میں سورج گھولتا…

Read More

عباس رضوی

دُعا کو ہاتھ اُٹھاتے تو لب نہ ہلتے تھے محبتوں پہ ہمیں اعتماد ایسا تھا

Read More

عباس رضوی ۔۔۔ بہت ہیں جن کے مقدر میں گھر نہیں ہے کوئی

بہت ہیں جن کے مقدر میں گھر نہیں ہے کوئی مگر ہماری طرح در بدر نہیں ہے کوئی یہ ابر و باد، یہ موسم شریکِ غم ہیں مرے بس ایک سنگ ہے جس پر اثر نہیں ہے کوئی نظر اُٹھی ہے اُدھر کو جدھر ہیں گھر آباد ہوا چلی ہے اُدھر کی جدھر نہیں ہے کوئی یہ لوگ کون ہیں، کس سرزمیں سے آئے ہیں بدن ضرور ہیں کاندھوں پہ سر نہیں ہے کوئی وہ لوگ ہم ہیں جنھیں کھا گیا کمالِ ہنر یہ شہر وہ ہے جہاں معتبر نہیں…

Read More

ریت گھڑی ۔۔۔ عباس رضوی

ریت گھڑی ۔۔۔۔۔۔ خوبصورت چمک دار رنگوں روشن ہندسوں اور ایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑتی ہوئی سنہری روپہلی سوئیوں سے محروم سُریلی آواز میں رہ رہ کر گنگنا اُٹھنے والے الارم سے بے نیاز میں ایک ریت گھڑی ہوں تم اگر چاہو تو میرے بلّور یں جسم کے اندر میری مضطرب روح کو صاف دیکھ سکتے ہو کیونکہ میرے وجود کا آدھا حصہ پیاس ہے اور آدھا ایک سراب ۔۔۔۔۔

Read More

عباس رضوی ۔۔۔۔۔۔ پسِ دیوار دریا دیکھتا ہوں

پسِ دیوار، دریا دیکھتا ہوں میں اپنے خواب تنہا دیکھتا ہوں میں آئینے کی حیرانی میں شامل خود ا پنا ہی تما شا د یکھتا ہوں جب اِن آنکھوں میں سرسوں پھولتی ہے تو ہر منظر سنہرا دیکھتا ہوں میں اکثر رات بھر بیدار رہ کر نئے  خوابوں کا رستہ دیکھتا ہوں سسکتے دیکھتا ہوں زندگی کو قضا کو رقص کرتا دیکھتا ہوں میں دریاؤں کو بادل سے اُتر کر زمیں پر پاؤں دھرتا دیکھتا ہوں کسی ناٹک کی تیاری میں اکثر ہوا کو سانگ بھرتا دیکھتا ہوں میں ہر…

Read More

عباس رضوی ۔۔۔۔ ستارے چاہتے ہیں، ماہتاب مانگتے ہیں

ستارے چاہتے ہیں، ماہتاب مانگتے ہیں مرے دریچے نئی آب و تاب مانگتے ہیں وہ خوش خرام جب اس راہ سے گزرتا ہے تو سنگ و خشت بھی اذنِ خطاب مانگتے ہیں کوئی ہوا سے یہ کہہ دے ذرا ٹھہر جائے کہ رقص کرنے کی مہلت حباب مانگتے ہیں عجیب ہے یہ تماشا  کہ میرے عہد کے لوگ سوال کرنے سے پہلے جواب مانگتے ہیں طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں مَیں مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں یہ احتساب تو دیکھو کہ…

Read More

سلام بہ حضورِ امامِ عالی مقام

یہی نہیں کہ فقط کربلا حسین سے ہے حسین سے ہیں محمد، خدا حسین سے ہے کسی نے پوچھ لیا کس کے دم سے ہے اسلام قضا و قدر نے جھک کر کہا: حسین سے ہے ہزار چشمہء آبِ رواں ہیں دنیا میں مگر یہ پیاس کا دریا بہا حسین سے ہے یہ مرغزارِ محمد، یہ لالہ زارِ علی شہادتوں کا یہ گلشن ہرا حسین سے ہے یہ اپنی منزلِ اول پہ لٹ چکا ہوتا رواں دواں جو ہے یہ قافلہ حسین سے ہے اگرچہ بیعَتِ باطل قبول دل سے…

Read More