عباس رضوی ۔۔۔ مثالِ موجِ صبا اعتبار اپنا نہیں

مثالِ موجِ صبا اعتبار اپنا نہیں کہ دل تو اپنا ہے پر اختیار اپنا نہیں یہ برگ و بار، یہ سرو و سمن اُسی کے ہیں کوئی گلاب سرِ شاخسار اپنا نہیں نہ منزلوں کی خبر ہے، نہ کارواں ہے کوئی مگر قیام سرِ رہ گُذار اپنا نہیں اُنھی کا خوف اُنھی سے خطر جو اپنے ہیں امید ہے تو اُسی سے ہزار اپنا نہیں گئے وہ دن کہ ہمی پیاس تھے ہمی شبنم نہ جانے کس کا ہے اب انتظار، اپنا نہیں یہ اور بات کہ شامل غبارِ راہ…

Read More

شناخت (قومی و ملی نظمیں) ۔۔ خورشید رضوی

DOWNLOAD شناخت۔۔ قومی و ملی نظمیں۔۔ خورشید رضوی

Read More

عباس رضوی ۔۔۔ اس خرابے کو بہرحال فنا ہونا ہے

Read More

قرمزی راتوں کا جادو ۔۔۔ عباس رضوی

قرمزی راتوں کا جادو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرمزی راتوں کا جادو خواہشوں کو بال و پر دیتا ہے نغمے کو ہوا کے پائوں کی زنجیر کر دیتا ہے اور پھر ہر نَفَس کو رنگ ہر احساس کو خوشبو کی خلعت نذر کرتا ہے تھرکتی رقص کرتی ساعتوں کو وصل کا پیغام دیتا ہے (یہی آتش فشاں لمحے ہماری خواب گاہوں کو ہماری خواہشوں سے گرم رکھتے ہیں) خیالوں پر کمندیں ڈالتا ہے اَدھ کِھلے غنچوں کے ہاتھوں میں چھلکتے جام دیتا ہے دلوں کو مضطرب کرتا ہے اور آنکھوں میں سورج گھولتا…

Read More

خورشید رضوی

وہ آ گیا تو جیسے سبزے میں جان آئی دوڑی رَمق ہَوا کی ساکت صنوبروں میں

Read More

دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا ۔۔۔ خورشید رضوی

دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا ایک ساعت کو شب و روز پہ طاری کرنا اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنھیں آتا تھا خاک سے دل جو اَٹے ہوں، اُنھیں جاری کرنا موت کی ایک علامت ہے، اگر دیکھا جائے روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا تُو کہاں، مرغِ چمن! فکرِ نشیمن میں پڑا کہ ترا کام تو تھا نالہ و زاری کرنا ہوں مَیں وہ لالۂ صحرا کہ ہُوا میرے سپرد دشت میں پیرویٔ بادِ بہاری کرنا اِس سے پہلے کہ یہ سودا مرے سر میں…

Read More

نیلے پہاڑ ۔۔۔ خورسید رضوی

نیلے پہاڑ ۔۔۔۔۔۔ پھر بُلاتے ہیں مجھے نیلے پہاڑ دُور اُفُق پر آسمانوں سے ملے سبز پیڑوں کی قطاروں سے پَرے پا پیادہ گائوں کی جانب رَواں سادہ دِل اَنجان بڑھیا کی طرح بادلوں کی گٹھڑیاں سر پر رکھے پھر بُلاتے ہیں مجھے نیلے پہاڑ جانے کب قدموں کی زنجیریں کٹیں جانے کب رستے کی دیواریں ہٹیں قفل ٹوٹیں حاضر و موجود کے جانے کب بادل کے رَتھ پر بیٹھ کر بجلیوں کے تازیانے مارتا بارشوں کے پانیوں میں بھیگتا مَیں اڑائوں آندھیوں کے راہوار پھر بُلاتے ہیں مجھے نیلے پہاڑ

Read More

عباس رضوی

دُعا کو ہاتھ اُٹھاتے تو لب نہ ہلتے تھے محبتوں پہ ہمیں اعتماد ایسا تھا

Read More

عباس رضوی ۔۔۔ بہت ہیں جن کے مقدر میں گھر نہیں ہے کوئی

بہت ہیں جن کے مقدر میں گھر نہیں ہے کوئی مگر ہماری طرح در بدر نہیں ہے کوئی یہ ابر و باد، یہ موسم شریکِ غم ہیں مرے بس ایک سنگ ہے جس پر اثر نہیں ہے کوئی نظر اُٹھی ہے اُدھر کو جدھر ہیں گھر آباد ہوا چلی ہے اُدھر کی جدھر نہیں ہے کوئی یہ لوگ کون ہیں، کس سرزمیں سے آئے ہیں بدن ضرور ہیں کاندھوں پہ سر نہیں ہے کوئی وہ لوگ ہم ہیں جنھیں کھا گیا کمالِ ہنر یہ شہر وہ ہے جہاں معتبر نہیں…

Read More

ریت گھڑی ۔۔۔ عباس رضوی

ریت گھڑی ۔۔۔۔۔۔ خوبصورت چمک دار رنگوں روشن ہندسوں اور ایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑتی ہوئی سنہری روپہلی سوئیوں سے محروم سُریلی آواز میں رہ رہ کر گنگنا اُٹھنے والے الارم سے بے نیاز میں ایک ریت گھڑی ہوں تم اگر چاہو تو میرے بلّور یں جسم کے اندر میری مضطرب روح کو صاف دیکھ سکتے ہو کیونکہ میرے وجود کا آدھا حصہ پیاس ہے اور آدھا ایک سراب ۔۔۔۔۔

Read More