رقص ۔۔۔۔۔ راجیندر منچندا بانی

ناچ، ہاں ناچ کہ ہر شورش و ہنگامہ پر
پھیل جائے تری جھن جھن کاحسیں پیراہن
ناچ، ہاں ناچ کہ سینے میں ترے
ایک موتی کی طرح راز زمانے کا سمٹ کر رہ جائے
بازوئوں کو کبھی ہونے دے دراز
جمع کرنے دے خد و خال کبھی اپنی حسیں آنکھوں کو
فرشِ آواز پہ رکھ اپنے پُراسرار قدم
اور چمکتے ہوئے سنگیت کا جاود پی جا!
ناچ صد نشۂّ شادابی سے
ناچتی جا اسی مستی میں کہ تو ایک کنول بن جائے
اور تجھ کو کسی تالاب کے سینے میں اُتار آئیں ہم
بھوت آکر تری رنگت میں بسیرا کر لیں
اور ہم—
بوڑھے درختوں کی کہن سال لٹکتی ہوئی شاخوں
سے لپٹ کر روئیں
سالہا سال لپٹ کر روئیں!

Related posts

Leave a Comment