کون ہے ، کیا ہے ، مظفر حنفی ۔۔۔ سید محمد ابوالخیر کشفی

کون ہے ، کیا ہے ، مظفر حنفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بات ساٹھ برسوں میں مظفر حنفی کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ:
                                   کون ہے ، کیا ہے ، مظفر حنفی
تو پھر ہم کون ہیں کہ مظفر شناسی کا دعویٰ کریں۔ اور ویسے بھی یہ سوال انسان کی پیدائش کے ساتھ وجود میں آ گیا تھا کہ:
                                   من کیستم؟
مظفر حنفی کی غزل اس بات کا ادھورا جواب ہے کہ ’’کون ہے ، کیا ہے ، مظفر حنفی۔‘‘
اپنی تلاش اور اپنے آپ کو پانے کی جستجو ہر مہذب، سوچنے والے انسان کا مقدر ہے اور اپنے آپ کو پانے کی یہ کوشش کبھی شاعری بن جاتی ہے ، کبھی مصوری، کبھی خلوت نشینی کی عبادت اور کبھی محفل میں خاموشی۔
شاعری مظفر حنفی کا مسئلہ ہے۔ شاعری ان کے لیے جوازِ زندگی بھی ہے ، ان کی تنہائی بھی اور جلوت میں رزم آرائی بھی۔ کبھی مخالفوں کے مقابل ان کا ٹھٹھا اور قہقہہ کا سامانِ حرب ہے اور کبھی لفظِ عفو و درگزر بھی۔
مظفر حنفی ایک پُر گو شاعر ہیں۔ یہ ایک معلوم اور ظاہر حقیقت ہے اور بس ۔۔۔ لیکن یار لوگوں نے اسے بھی مسئلہ بنا لیا ہے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو آدمی اپنی شاعری کو اپنی زندگی بنا لے اس کے ہاں پُر گوئی خود بخود ظہور پذیر ہو جائے گی۔ میرؔ صاحب کے ضخیم کلیات اسی حقیقت کو پیش کرتے ہیں۔ ان کے لیے شاعری زندگی کی پیش کش نہیں بلکہ زندگی ہے اور اپنی بلند تر سطح پر یہ شاعری زندگی کی ترتیبِ نو بن جاتی ہے۔ میر صاحب کے لیے ’’بلندش بسیار بلند و پستش بسیار پست‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ ناسمجھوں کا تبصرہ ہے۔ میر صاحب نے اپنی پوری زندگی شاعری میں پیش کر دی اور زندگی میں فراز بھی آتے ہیں اور نشیب بھی، بلندی بھی اور پستی بھی۔ زندگی کو پوری طرح دیکھنے ، سمجھنے اور پیش کرنے کو لوگوں نے پست و بلند کے پیمانوں سے ناپا۔ بے چارے اور کر بھی کیا سکتے تھے اور ان بے چاروں کی نسل بھی یہی کر سکتی ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ ہم ایسے شاعروں کی بلندی ہی سے ملنا چاہتے ہیں اور یہ تمنا پیدا ہوتی ہے کہ یہ اپنے کم نظر نقادوں کا ذکر نہ کرتے تو خوب کرتے۔ مگر ہم ان سے آدمی ہونے کے تقاضوں کو چھیننے والے کون ہیں؟ مظفر حنفی کے ہاں بھی کم نظروں کا ذکر ہے اور خوب خوب ہے مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ان سے الجھ کر اپنی راہ کھوٹی کروں۔
اس وقت میرے پاس مظفر حنفی کا گیارہواں شعری مجموعہ ’’ہاتھ اوپر کیے‘‘ ہے۔ نقل مکانی کی وجہ سے ’’پرچم گردباد‘‘ ادھر اُدھر ہو گیا ورنہ اس کی روشنی میں حنفی صاحب کی غزل گوئی کے رجحانات پر گفتگو ہو سکتی تھی۔ مگر یہ بھی اچھا ہوا۔ ’’ہاتھ اوپر کیے‘‘ اکیسویں صدی کے آغاز میں مظفر کی زندگی کی شعری روئیداد ہے۔ حقیقت جب شعر کے قالب میں ڈھلتی ہے تو اور بھی قابلِ اعتماد ہو جاتی ہے ، بالخصوص غزل کے اشعار میں ڈھل کر، کیوں کہ غزل کا شاعر کسی نظریہ کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے چکر میں نہیں پڑ  تا۔ اسے نہ تو قنوطی کہلانے کا شوق ہوتا ہے اور نہ وہ رجائیت کا پرچم بلند کرتا ہے۔ اس کا کام تو یہ ہے کہ:

 لمحوں کو طول دے کے ابد ہم نے کر دیا

لمحوں کو گرفت میں لینے والا ہی وقت کے بطون کی خبر لا سکتا ہے۔ وقت کی چھوٹی سی چھوٹی اکائی کا شناسا وہی ہو سکتا ہے جو حد درجہ تہذیب یافتہ شخصیت کا مالک ہو۔ مگر یہ بات نیم وحشی ذہن اور بٹے ہوئے علم و دانش رکھنے والے نہیں سمجھ سکتے۔
سب سے پہلے تو میں مجموعے کے نام سے الجھتا رہا۔ یہ نام تو کچھ کچھ مظفر حنفی کے اس شعر سے سمجھ میں آیا:

 پھول برسائیں مرے دوست کہ پتھر برسائیں
 میں نے ہاتھ اپنے اٹھا رکھے ہیں اوپر کی طرف

"ہاتھ کو اوپر اٹھا رکھنا” غزل گوئی کے ایک رویہ کا اظہار اور اعلان ہے۔ یہ ہاتھ غزل کو کاغذ کے سینے میں اُتار کر اب فارغ ہو گئے ہیں اور یہ قولِ غالب کس بلند سطح سے ہماری تفہیم کی طرف آ رہا ہے کہ:

 نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

اور اوپر اٹھنے والے غزل گو ہاتھ، اوپر اٹھنے سے پہلے زندگی کے بھنور کو موجِ ہموار بنا دیتے ہیں۔ زندگی کے ساتھ ایسا معاملہ کون کر سکتا ہے:

 اس طرف بھی تو دیکھیے صاحب
 دیکھیے پھر بھنور سے نکلے ہاتھ

انسانی ہاتھ بھی کمال کی چیز ہے۔ یہ پڑوسی کی پیٹھ میں خنجر بھی گھونپ سکتا ہے ، مہینے کی پہلی تاریخ کو غریب کلرک کی جیب بھی کاٹ سکتا ہے ، مگر یہ ہاتھ موضوعِ غزل نہیں بن سکتا (ہاں ، ایک مکتبۂ فکر کے سخن وروں کا موضوعِ سخن بن سکتا ہے )، ہمارے غزل گو کا دستِ ہنر زندگی میں دوسروں ، بالخصوص کسی دوسرے کے لیے دستِ رفاقت کی کہانی رقم کر سکتا ہے یا بازار سے لوٹنے والے کسی مردِ خیر کے ہاتھ کے کھو جانے کا نوحہ لکھ سکتا ہے :

دل ہی نہیں روشن تو تجھے کیا نظر آئے
 یہ وادئ ظلمت ہے، مرے ہاتھ میں دے ہاتھ

 سنتے ہیں کہ نیکی ہی کماتا تھا ہمیشہ
اک روز وہ بازار سے لوٹا تو نہ تھے ہاتھ

اس جہاں دیدہ، مردم گزیدہ، مایوس اور پر امید، سخی اور بے نیاز ہاتھوں والے کے ہاتھوں کا شجرۂ نسب میر تقی میرؔ کے ہاتھوں سے جا ملتا ہے :

آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز   
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے

صاحبو! میں مظفر حنفی کے مجموعۂ غزل کے نام ہی میں الجھ کر رہ گیا۔ اس مجموعے کے بارے میں ایک دو باتیں اور عرض کرنی ہیں۔
مظفر حنفی نے اپنے مجموعے کے حرفِ آغاز (مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔) میں لکھا ہے کہ ’’میں نئی زمینوں کی تلاش میں بہت کاوش کرتا ہوں جو عموماً مشکل ہوتی ہیں۔ کہیں قافیے سخت ہوتے ہیں تو کسی میں ردیف آڑ  ی ترچھی۔ پھر بھی قافیے کو شگفتہ بنانے اور ردیف کو ان سے جسم و جاں کی طرح چسپاں کرنے میں خون پسینہ ایک ہو جاتا ہے۔‘‘
غزل کو حقارت سے ’قافیہ پیمائی‘ کہنے والے خال خال اب بھی پائے جاتے ہیں۔ چلیے مان لیا:

کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ 
 یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو

اور ناصر کاظمی کے مشورے پر عمل کون کرے ؟ آزاد غزل تو موجود ہی ہے۔ ہمارا یہ عہد میدانِ طب ہی میں عجب دور نہیں۔ مصنوعی اعضا سے انسان کی زندگی سہل بنائی جاتی ہے اور آزاد غزل کے نام پر اردو ادب کی حرمت کو بٹّا لگایا جا رہا ہے۔ بہرحال ہمارے دور میں بھی ایسے غزل گو زندہ ہیں جو قافیہ کی پابندی کے باوجود یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں :

مظفر کے لہجے نے ثابت کیا
غزل قافیوں کا پلندا نہیں

میں بات کرنا چاہتا تھا ردیف کی، مگر قافیے سے بچ کر کیسے گزرا جا سکتا ہے کیوں کہ غیر مردف غزل تو ہو سکتی ہے مگر قافیہ سے ذوقِ نغمہ رکھنے والا کوئی شخص کیسے گزر سکتا ہے۔
عہدِ حاضر کی غزل کو ردیف نے نیا رنگ و آہنگ عطا کیا ہے۔ طویل ردیفوں کے اس عہد میں غزل کی موج سامانی غزل کا روپ بن گئی ہے۔ بعض یک لفظی ردیفوں میں بھی غزل گو شعراء نے جہانِ معانی آباد کر دیے ہیں۔ ’’میاں‘‘ کی ردیف میں جو غزلیں لکھی گئی ہیں ان کو میر صاحب کے عہد سے رسا چغتائی اور رفعت القاسمی تک لے آئیے، اس لفظ کی تہیں کھلتی جائیں گی اور اپنی زبان پر آپ کا مان بڑھتا چلا جائے گا۔ ’’میاں‘‘ کو اپنی غزل کے مطالعے کا قافیۂ اول بناتے ہوئے مظفر میاں نے ”یار بادشاہ” کی ردیف میں شعر کا جادو جگایا ہے۔ میں نے ایک طویل مضمون میں غزل میں نعت کی جلوہ گری دیکھی اور دکھلائی تھی۔ وہ مطالعہ میرے تنقیدی مجموعے ’’نعت اور تنقیدِ نعت‘‘ میں موجود ہے۔ میری دانست میں مظفر حنفی کی یہ غزل نعت کی دنیا میں ایک نئے لہجے کا درجہ رکھتی ہے۔ کسی غزل گو اور کسی شاعر کے بارے میں ایسا دعویٰ اس کے کلام کی مجموعی فضا میں محمدِ عربی علیہ الصلوٰۃ و تسلیم کی یاد کے کنایوں اور اشاروں کی موجودگی کی بنا پر لگایا جا سکتا ہے۔ میں آپ کو مظفر حنفی کا ایک شعر سناتا ہوں جس میں اس طرزِ زیست کو حسرت سے یاد کیا گیا ہے جس سے ہم محروم ہو گئے ہیں :

کیا ہوئے طور طریقے وہ مدینے والے
 وہ مہاجر ہے ، وہ انصار ہے ، پوچھو ان سے

محبت کا ایک حوالہ بہت ہے۔ تو اب نعتیہ غزل سنیے۔ یہ نعت کا اعزاز ہے کہ مظفر حنفی نے اس فلک رتبہ ذات کی محبت میں لفظ ’’یار‘‘ کو آسماں نصیب بنا دیا۔ مگر نعت سے پہلے حنفی کا ایک اور نعتیہ شعر سن لیجیے۔ یہ شعر اسی مجموعے کی ایک غزل کا ہے۔ غزل میں نعتیہ شعر اچانک سامنے آتا ہے تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اچانک کسی نخلستان میں پہنچ گیا۔ وہ اور ان کا ذکر ہمارے لیے آبِ حیات ہے جو ہمارے وجود میں خونِ رواں کی طرح بہتا رہتا ہے اور ہمیں شاداب کرتا رہتا ہے۔ اس شعر میں معراج کے عظیم معجزے کو غزل کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے :

قوسیں بس اک زقند بھر کے
ہفت آسماں اک اُڑ  ان کے ہیں

اب غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں

 تھوڑ  ا سا التفات، میاں یار بادشاہ!
 دینے لگے ہیں زخم دُھواں، یار بادشاہ!

ہے کون دست گیر مرا آپؐ کے سوا  
 سیلاب میں ہے قریۂ جاں، یار بادشاہ!

معلوم یہ ہوا کہ وہاں آپؐ ہیں مقیم 
  ہم نے کیا قیام جہاں، یار بادشاہ!

ایسی کوئی نگاہ کہ سر میں نہیں رہیں
اندیشہ ہائے سود و زیاں، یار بادشاہ!

یہ شعر مقامِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ و سلّم سے باخبری کی شہادت بھی ہیں اور ایک امتی سے اس کے رسول کے تعلق کی دستاویز بھی ہیں۔ رسولِ عالی مرتبت سے یہ قربت، اور اس کا یہ احترام کہ نام لیتے ہوئے سینے میں سانس رکنے لگے تو شاعر "یار بادشاہ” کہہ کر چپ ہو جائے۔ ایسے دو لفظوں سے یہ خطاب وجود میں آیا ہے کہ رسول اور اس کے اُمتی کے بیچ کوئی حجاب نہ رہے اور ایسا احترام کہ "بادشاہ” کے سوا کسی لفظ میں سمٹ نہ سکے اور جب زخمِ حیات دھواں دینے لگیں تو انؐ کے تھوڑ  ے سے التفات کے علاوہ جینے کی اور کون سی سبیل ہے۔ اس دھوئیں میں اپنی ذات سے آگے بڑھ کر پورے ماحول کی تصویر کشی ہے۔ وہ ماحول جس میں دھواں بھی ہے اور قریۂ جاں کو بہا لے جانے والا سیلاب بھی، مگر ہماری سلامتی کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم نے جہاں بھی پناہ لی، وہاں ہمارا دست گیر موجود ہے۔ وہ جس کی معیت کا احساس ہر اندیشۂ سود و زیاں کو مٹا دیتا ہے۔
اب آخری بات جو عرض کرنا چاہتا تھا، یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلّم سے ہمارا رشتہ پورے آفاق کو ہمارا نگر بنا دیتا ہے ، فاصلے اور زمانے سمٹنے لگتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں کا احترام برحق لیکن ایک اُمتی کے لیے کراچی، دہلی اور مدینہ (اور دوسرے امصار و  ولایات) قریۂ محمدؐ بن جاتے ہیں۔
شاید کسی پاکستانی بلکہ کراچی کے کسی شاعر نے بھی کراچی کو اپنی غزل کی ردیف نہیں بنایا ہے۔ اور یہ ردیف تعلق نامہ بھی ہے ، شہرآشوب بھی، حزنیہ غزل کی نیو بھی (آخر پورب کا آدمی ہوں، بنیاد کے لفظ سے میرا کام نہیں چلتا)۔ لیجیے اس غزل کے بھی کچھ شعر سن لیجیے :

کاٹے گی مہاجر کو قرینے سے کراچی
ہے دور، بہت دور، مدینے سے کراچی

اُنچاس برس گزرے مگر سیر نہ ہو پائی 
 خون اپنی ہی اولاد کا پینے سے کراچی

تجھ پر ترس آتا ہے مہاجر ہو کہ انصار  
خوش ہے ترے مرنے سے نہ جینے سے کراچی

ہاں دوست کے سینے پہ چلا دیتی ہے خنجر
 دشمن کو لگا لیتی ہے سینے سے کراچی

ہماری اور آپ کی طرح کراچی بھی عجب ہے۔ نصف صدی سے ہمارے ساتھ کراچی کا یہی سلوک ہے مگر کراچی کے بنا ہم جی بھی نہیں سکتے۔ ارضِ حرمین کے سوا دنیا کی کون سی جگہ ایسی ہے جہاں کراچی بے طرح یاد نہ آتی ہو۔
میرا ارادہ تھا کہ مظفر صاحب کے منتخب اشعار آپ کو سنا کے بات ختم کی جائے ، مگر اتنے ہی سفر میں تھک گیا ہوں تو مضمون کو اس جگہ ختم کرتا ہوں جہاں سے ہماری نانیاں دادیاں قصہ کا آغاز کرتی تھیں :

ہے ایک مظفر بادشاہ
ہمارا تمھارا خدا بادشاہ

Related posts

Leave a Comment