بہت شور سنتے تھے! ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔

بہت شور سنتے تھے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم صاحب نے ایک روز قبل بیان دیاتھا کہ وہ کورونا وائرس سے پھیلی وبا سے نمٹنے کے لیے روڈ میپ دیں گے۔ بہت انتظار تھا کہ دیکھیے کیا روڈ میپ ملتا ہے، کیا لائحہ عمل سامنے آتا ہے۔ سارا گھر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا تھا۔ نو بج کر پندرہ منٹ ۔۔۔ وزیراعظم ۔۔۔مضطرب عوام ۔۔۔ اور پھر وہ وقت آ ہی گیا۔وہی باتیں، جو پچھلے خطبات ۔۔۔ ایک بات یوں ہی دل میں آ ئی کہ ہمارے ہاں جو رواج چل نکلا ہے، شاید مستقبل قریب میں ۔۔۔ اس وبا کے خاتمے کے بعد ، ممکن ہے اس سے پہلے ہی ’’خطباتِ عمران خان نیازی در کورونا وائرس‘‘ کے نام سے کوئی کتاب منظرِ عام پر آ جائے، یاد کیجیے: میاں شہباز شریف پر بھی کچھ کتابیں لکھی گئی تھیں، میں تو ان کتب کے نام تک زبان پر لانا مناسب نہیں جانتا ۔۔۔ خیر ۔۔۔ اتنے ارب اِس لیے، اتنے ارب اُس لیے، مل کر مقابلہ کریں گے، قوم کر سکتی ہے،قوم کر دکھائے گی۔ اپنے غلط فیصلوں کو درست ثابت کرنے کے لیے بھارتی وزیراعظم کی مثال ۔۔۔ ترقی یافتہ ممالک ۔۔۔ ترقی پزیر ممالک ۔۔۔ ٹائیگر فورس، کورونا فنڈ ۔۔۔ اور ۔۔۔ پاکستان زندہ باد! اللہ اللہ خیر صلا۔ اب اسے روڈ میپ کہا جائے؟ کیا خیال ہے؟ اور اگر یہ روڈ میپ ہے تو ایک بات ۔۔۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ دو لاکھ اموات کے بعد بھی وہ اور اس کی حکومت اس وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے تو اسے کامیابی گنا جائے گا۔ خدانخواستہ ہمارے خان صاحب کا لب و لہجہ بھی ۔۔۔ کوئی دن تھے جب وہ نریندر مودی سے متاثر تھے ۔۔۔ معذرت خواہ ہوں اگر کچھ دوستوں کو میری یہ بات بری لگے لیکن اگر وہ متاثر نہیں بھی تھے تو مودی سے کشمیر کے حوالہ سے کچھ امیدیں ضرور لگائے بیٹھے تھے، ان دنوں کچھ احباب اُن امیدوں کو ’خان صاحب کی دور اندیشی‘ بھی کہتے پائے گئے ۔۔۔ ویسے آپس کی بات ہے ، یہ موضوع بھی ایسا برا نہیں، بس تھوڑی مزید ڈھٹائی کی ضرورت ہے۔لیکن یہ پرانی باتیں ۔۔۔ گڑھے مردے اکھاڑنے سے کیا حاصل ۔۔۔ ایسے کرب ناک حالات میں کہ ہمارے ملک میں جاری و ساری ہیں، ہمیں ایک لیڈر ۔۔۔ بقول علامہ اقبال:

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

ان حالات میں وہی حالات کے مقابلے کے لیے قوم کو تیار کر سکتا ہے جس میں علامہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کے پہلے مصرعہ میں درج تین خوبیاں ہوں گی ۔۔۔ یہ تین خوبیاں ۔۔۔ ہم ترس گئے، صرف ہم ہی کیا، وہ جو ہمارے بڑے تھے، وہ جو گزر گئے، وہ جو کسی میں یہ تینوں خوبیاں دیکھنے کی تمنا دلوں میں لیے ۔۔۔ ہر آنے والا دور، ہر آنے والا رہنما ۔۔۔ یہاں پھر اختلافی نوٹ کہ کیا قائداعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی ایسا ہیولہ بھی ملا جس میں ۔۔۔ بات خطاب سے چلی اور میں خدا معلوم جذبات کی رو میں کہ خوف کے بہاؤ میں بہتا کہیں اور نکل گیا، ماضی میں کچھ تلاش کرنے نکل پڑا۔ کوئی ایسا جو ریوڑ کو قوم میں تبدیل کر سکے، کوئی ایسا جو ساری قوم کو ایک پرچم تلے ۔۔۔ اک پرچم کے سائے تلے ہم ۔۔۔ کل بھی ایک دوسرے سے دور، بہت دور تھے اور آج بھی ۔۔۔ کتنی امیدیں، کتنے خواب چکنا چور ہو گئے۔
اسحاق وردگ کا ایک شعر یاد آ گیا:

وہ نکلتا ہے بعد میں ناقص
ہم جسے بہترین کہتے ہیں

ایک دوسرے پر جا و بے جا تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہونے کا ۔۔۔ لیکن یہ بات کون سمجھائے اور سمجھائے بھی تو کسے کہ ہم لوگ شاید اس مقام سے جسے منزل کہتے ہیں ۔۔۔ راستہ بھٹک کر کہیں دور نکل آئے ہیں۔ ایسے مقام پر آن کھڑے ہیں جہاں سے کوئی سمت نما بھی ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ سندھ والوں نے جو کیا غلط کیا ۔۔۔ پنجاب میں کورونا وائرس کے کیس باقی صوبوں سے کہیں زیادہ ہیں ۔۔۔ لیکن لاک ڈاؤن کا اعلان تو پنجاب میں بھی ہوا تھا، خیبر پختون خواہ میں بھی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی ۔۔۔ پھر یہ ٹیلی ویژن پر مناظروں میں ایک دوسرے پر الزامات سے کیا حاصل!جو کورونا سے لاحق ہونے والے مرض میں مبتلا ہو کر اسپتالوں میں پڑے ہیں، کچھ اس خوف سے ٹیسٹ ہی نہیں کروا رہے کہ اگر ٹیسٹ پازیٹو آ گیا تو اسپتال میں ۔۔۔ یہ خوف کیوں ہے؟ ’’تم پھر بھونکنے لگے ہو ۔۔۔ میں تمھاری جان نکال لوں گی‘‘۔ یہ جملے گو کہ منظرِ عام پر اس طور نہ آ سکے، جس طور میڈیا کی آزادی کے بلند بانگ دعووں نعروں کے بعد ۔۔۔ پرائیویٹ اسپتالوں پر عوام کی وہ اکثریت اعتبار کرتی ہے، جو ان اسپتالوں میں ہونے والے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں، لیکن پرائیویٹ اسپتالوں کو تاحال شاید اس مرض کے علاج کی اجازت ہی نہیں ۔۔۔ ایسا کیوں ہے، اس بارے میں بھی راوی خاموش ہے۔ راوی کے ہونٹ گویا سکتے کے عالم میں ہیں ، صرف آنکھیں کلام کر رہی ہیں، اور اس کلام میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں، ایک گہری مایوسی اور وہی ہمیشہ والا پیغام کہ اللہ پر بھروسہ رکھو، یہ بندے ۔۔۔!
وزیراعظم محترم کا کہنا ہے کہ اس وبا پر تو ترقی یافتہ ممالک بھی قابوپانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ۔۔۔ توکیا ہم محض یہ دیکھ کر خاموش بیٹھے رہیں۔ فرماتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نے اپنے عوام سے معافی مانگ لی ۔۔۔ چلیے یہاں تو معافی آپ کو نہیں مانگنا پڑے گی کیوں کہ آپ نے تو کچھ کیا ہی نہیں، جو کیا وہ صوبائی حکومتوں نے کیا، سو وہ خود بھگتیں گی اور اس کے بعد ۔۔۔ خطبات کی اشاعت ۔۔۔لیکن ہم عوام ۔۔۔ ہمارا کیا ہے؟ ہم میں سے جو بچ گئے وہ بار بار سلیم ساگر کایہ شعر پڑھتے ملیں گے:

ہم پہ گزری ہے شبِ ہجر سو ہم جانتے ہیں
رات کس موج میں تھی جب وہ ستارا ٹوٹا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ دن
۰۱ اپریل ۲۰۲۰ء

Related posts

Leave a Comment