جلیل عالی ۔۔۔ سامانِ شگفتِ جاں

سامانِ شگفتِ جاں ۔۔۔۔ مرے جاں تاب مہتابو! تمہاری زندگانی کی ہلالی رُت بڑی شدت سے یاد آتی ہے تم میری نگاہوں میں امڈتی چاہتوں کے ایک ہلکے سے اشارے پر قلانچیں بھرتے آتے تھے مری گردن میں اپنی ننھی منی نرم باہیں ڈال کر مجھ سے لپٹ جاتے تھے کیسے والہانہ، کس قدر بے اختیارانہ مری آغوش میں آتے مرے اک اک بُنِ مُو میں سماتے تھے سماعت اْس گھڑی تینوں دلوں کی دھڑکنیں اک ساتھ سنتی تھی سواری کے لیے کس دھونس سے گھوڑا بنا لیتے تھے ابُّو…

Read More

ارشد محمود ارشد ۔۔۔ دو غزلیں

عمر گزری ہے اسی طور ہماری ساری زندگی خاک نشینی میں گزاری ساری بغض و نفرت کا کوئی سانپ نہ پالا دل میں دیکھ چاہت سے بھری یار پٹاری ساری میں تجھے اس کی وکالت سے کہاں روکتا ہوں تو نے دیکھی ہی نہیں کار گزاری ساری میں نے ہی دام میں آ کر ہے عیاں تم کو کیا ورنہ سازش تو سمجھ لی تھی تمہاری ساری دینے والے کی رضا ہے کہ وہ کب دیتا ہے اپنی سانسیں بھی تو ہیں یار اُدھاری ساری لوگ جو دہر کمانے میں…

Read More

فرہاد ترابی ۔۔۔ ریشم و اطلس و کم خواب نہیں دیکھتے ہیں

ریشم و اطلس و کم خواب نہیں دیکھتے ہیں ہم پہ الزام ہے ہم خواب نہیں دیکھتے ہیں جب وہ آتا ہے سرِ شام لبِ بام کبھی آسماں ہم ترا مہتاب نہیں دیکھتے ہیں آپ اسے کچھ بھی کہیں آپ کی مرضی ہے جناب ٹھان لیتے ہیں تو اسباب نہیں دیکھتے ہیں یہ الگ بات کہ ہنستے ہوئے ٹالا ہے اسے دل پہ کیا گزری ہے احباب نہیں دیکھتے ہیں بستیاں جن کی ہوں دریا کے کنارے فرہادؔ گھر بناتے ہوئے سیلاب نہیں دیکھتے ہیں

Read More

محمد اشفاق بیگ ۔۔۔ رہنے کو جو اک دشت میں گھر ڈھونڈ رہے ہیں

رہنے کو جو اک دشت میں گھر ڈھونڈ رہے ہیں ہم خود میں اذیت کا ہنر ڈھونڈ رہے ہیں کل تک تھا جنھیں آبلہ پائی پہ بہت ناز وہ لوگ بھی صحرا میں شجر ڈھونڈ رہے ہیں ہر سمت محبت کے گلابوں کی مہک ہو آشائوں کا اک ایسا نگر ڈھونڈ رہے ہیں دیوار تو دونوں نے ہی مل کر تھی اٹھائی اب دونوں ہی دیوار میں در ڈھونڈ رہے ہیں تا عمر جفائوں کے جو بوتے رہے کانٹے وہ اپنی وفائوں کا ثمر ڈھونڈ رہے ہیں ہر کوچہ و…

Read More

محمد علی ادیب ۔۔۔ عشق کا دیکھا ہے اثر میں نے

عشق کا دیکھا ہے اثر میں نے دل پہ جھیلا ہے اک غدر میں نے درد سے کر لی دوستی آخر جب نہیں پایا چارہ گر میں نے ایک فیضِ نگاہِ یار، تجھے کتنا ڈھونڈا ہے دربدر میں نے یہ الگ بات، خود ہوا رُسوا تْجھ کو رکھا ہے مْعتبر میں نے یہ محبت کی چھاؤں بانٹے گا جو لگایا ہے یہ شجر میں نے ایک شاعر کی چاہتیں دے کر کر دیا ہے تمھیں امر میں نے سوگ دل کا تھا چار دن کا ادیب اور نبھایا ہے عمر…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ شاید ذرا سا جان لے رازِ جہان کو

شاید ذرا سا جان لے رازِ جہان کو اک دوسرے میں دیکھ زمیں ، آسمان کو رکھا ہے اِس مقامِ یقیں پر گمان کو جب چاہے لا مکان بنا لیں مکان کو کشتی اُتارتا ہوں سمندر میں، تو ہَوا چلتی ہے دیکھ دیکھ رُخِ بادبان کو سینے میں ایک یاد ہمیشہ جواں رہی رکھا ہے دُور جس نے زمانے سے دھیان کو وہ دن بھی تھے کہ دیکھتے تھے دُور دُور تک طائر تمام رشک سے میری اُڑان کو بیٹھا ہوا ہے گھات میں کوئی مچان پر کوئی ہدف بنائے…

Read More

بشیر احمد حبیب ۔۔۔ دور رہتا بھی نہیں پاس آتا بھی نہیں

بشیر احمد حبیب کی یہ غزل وصل و ہجر کے بیچ معلق اس کیفیت کا شاعرانہ بیان ہے جہاں محبوب ایک ماورائی سایے کی مانند نہ پوری طرح قریب ہے نہ بالکل غائب۔ یہ کلام اس ادھورے تعلق کے خلاف خاموش احتجاج ہے جو دل و دماغ پر ابرِ مسلسل کی طرح چھایا رہتا ہے۔

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ افروز رضوی

افروز رضوی کی یہ نعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، روحانی روشنی اور حق کی کامیابی کی آرزو کو نہایت عقیدت سے بیان کرتی ہے۔

Read More

ماجد صدیقی ۔۔۔ صحنوں کی گھُٹن شہر کا مینار نہ جانے

ماجد صدیقی کی یہ غزل جذبات اور احساسات کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔ اس میں ذاتی دکھ، سماجی ناانصافی اور انسان کے اندرونی و بیرونی تضادات کو سادہ مگر علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ شاعر اپنے کلام کے ذریعے دکھاتا ہے کہ انسان کے اندر کے درد اور باہر کی سخت حقیقتیں کس طرح آپس میں ٹکراتی ہیں۔

Read More