میر تقی میر … بے طاقتی نے دل کی گرفتار کر دیا

بے طاقتی نے دل کی گرفتار کر دیا اندوہ و دردِ عشق نے بیمار کر دیا دروازے پر کھڑا ہوں کئی دن سے یار کے حیرت نے حسن کی مجھے دیوار کر دیا سائے کو اس کے دیکھ کے وحشت بلا ہوئی دیوانہ مجھ کو جیسے پریدار کر دیا نسبت ہوئی گناہوں کی از بس مری طرف بے جرم ان نے مجھ کو گنہگار کر دیا دن رات اس کو ڈھونڈے ہے دل شوق نے مجھے نایاب کس گہر کا طلبگار کر دیا دور اس سے زار زار جو روتا…

Read More

محمد علوی ۔۔۔ سفر میں سوچتے رہتے ہیں چھاؤں آئے کہیں

سفر میں سوچتے رہتے ہیں چھاؤں آئے کہیں یہ دھوپ سارا سمندر ہی پی نہ جائے کہیں میں خود کو مرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوں یہ ڈر بھی ہے کہ مری آنکھ کھل نہ جائے کہیں ہوا کا شور ہے, بادل ہیں اور کچھ بھی نہیں جہاز ٹوٹ ہی جائے زمیں دکھائے کہیں چلا تو ہوں مگر اس بار بھی یہ دھڑکا ہے یہ راستہ بھی مجھے پھر یہیں نہ لائے کہیں خموش رہنا تمہارا برا نہ تھا علوی! بھلا دیا تمہیں سب نے نہ یاد آئے کہیں

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ سُن کے میرے عشق کی روداد کو  

سُن کے میرے عشق کی روداد کو لوگ بھولے قیس کو فرہاد کو اے نگاہِ یاس! ہو تیرا برا تو نے تڑپا ہی دیا جلاد کو بعد میرے اٹھ گئی قدرِ ستم اب ترستے ہیں حسیں بیداد کو اک ذرا جھوٹی تسلی ہی سہی کچھ تو سمجھا دو دلِ ناشاد کو ہائے یہ دردِ جگر کس سے کہوں کون سنتا ہے مری فریاد کو جائیں گے دنیا سے سب کچھ چھوڑ کر ہاں مگر لے کر کسی کی یاد کو اب مجھے مانیں نہ مانیں اے حفیظ مانتے ہیں سب…

Read More

 سلطان سکون :میرے عہد کا خدائے سخن ۔۔۔ ڈاکٹر عادل سعید قریشی

 سلطان سکون :میرے عہد کا خدائے سخن ابنِ رشیق نے اپنی کتاب ’العمدۃ فی صناعۃ الشعرونقد‘ میں جس شاعری کے خدوخال واضح کیے ہیں وہ آج بھی اپنے فکری اور فنی تازگی کے سبب من و عن تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ان افکار کی روشنی ہی میں متاخرین وناقدین اور شعرا نے اپنے اپنے مسالک ترتیب دیے ہیں۔ان افکار کا عکس اگر آج کسی شاعر کے ہاں دیکھنا مقصود ہو تو سلطان سکون کی کتاب’’کوئی ہے‘‘آپ کی منتظر ہے۔جہاں سلطان سکون کی شاعری اپنے حسن و تاثیرکی داد خواہ ہے۔۔…

Read More

آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)

ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے بغیر اُن کے یہاں محفلیں نہیں جمتیں گئے ہیں ایسے مکاں سے وہ پوچھنے والے جو ، اب تو ہم سے ملاقات بھی نہیں کرتے ڈرے ہیں آہ و فغاں سے وہ پوچھنے والے نکل گئے ہیں کہیں جنگلوں کو سب کے سب الگ ہیں کب کے یہاں سے وہ پوچھنے والے جدا ہوئے تو ہوئی شورشِ گماں پیدا ملے تھے امن و اماں سے وہ پوچھنے والے ہمارے حال سے صرفِ نظر کبھی…

Read More

اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر

ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے قدم کی جو پڑی کان میں آہٹ جاگے تھے مری قوم کے خوابیدہ جیالے توحید کے فرزند رسالت کے مجاہد ٹیپو تھا کوئی اُن میں کوئی طارق و خالد جب شوقِ شہادت میں بڑھی اُن کی سواری شیشے کی طرح کٹ گئے پتھر کے پُجاری گونجی تھی مجاہد کی اَذاں کھیم کرن میں نصرت کی بہار آ گئی گُلزارِ وطن میں رانی کے نشانے پہ گُمنڈی کا جہاں تھا خود اپنی چِتَا بھارتی لشکر…

Read More

شاہد ماکلی … گھر سے نکل کے شہرِ تماشا کا رُخ کیا

گھر سے نکل کے شہرِ تماشا کا رُخ کیا اکتا گیا میں خود میں تو دُنیا کا رُخ کیا آنکھوں میں دُھول اُڑی تو گیا دشت کی طرف دل میں اٹھی جو لہر تو دریا کا رُخ کیا موجودگی ہماری یہاں اک سوال تھی جس کا جواب ڈھونڈنے ہر جا کا رُخ کیا ہر رُخ سے پھر کَنارہ کشی اِختیار کی دنیا کی سَمت لپکے ، نہ عُقبا کا رخ کیا اندھیر چھایا رہتا تھا آنکھوں کے سامنے پھر ایک روز صبحِ مدینہ کا رخ کیا شاہد کبھی نہ پائے…

Read More