دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو
مجھ کو لگتا ہے کہیں گھر کا بیابان نہ ہو
خود سے پہلی ہے ملاقات مری جانتا ہوں
پھر بھی اے آئنے تو اتنا تو حیران نہ ہو
اس میں جذبے تو دھڑکتے نہیں دیکھے میں نے
غور سے دیکھ کہیں دل ترا بے جان نہ ہو
خواب ایسے نہ سجانا میری ان آنکھوں میں
جن کی تعبیر کا کوسوں تلک امکان نہ ہو
ایسے گھر کی نہیں اب مجھ کو ضرورت کوئی
زندگی کرنے کا جس میں کوئی سامان نہ ہو
درد ایسا ہی کوئی مجھ کو عطا کر جاناں
جس کا بن تیرے یہاں کوئی بھی درمان نہ ہو
جانے کیوں پھر بھی تکے جاتے ہو رستہ اس کا
جس نے وعدہ نہ کیا ہو کوئی پیمان نہ ہو
وہ یقینا ہے کوئی بارگہِ عشق جلیل
جس کے دروازے کھلے ہوں کوئی دربان نہ ہو
میں مسلمان ہوں پھر بھی مجھے دھڑکا ہے جلیل
بتِ کافر وہ کہیں میرا بھی ایمان نہ ہو