منا لینا اُس کو ہنر ہے مرا
بہانہ ہر اک کارگر ہے مرا
ہوا ہم سفر ہو گئ ہے مری
قدم ہیں مرے، اب نہ سر ہے مرا
مجھے کیا خبر تھی تری آنکھ میں
عجب ایک عکسِ دِگر ہے مرا
مجھے آسماں کر رہا ہے تلاش
گھنے جنگلوں سے گزر ہے مرا
میں دو دن میں خود تُجھ سے کٹ جاؤں گا
کہ ہر سلسلہ مختصر ہے مرا
زمانے تری رہبری کے لیے
بہت یہ غبارِ سفر ہے مرا
ترے سامنے کچھ نہ ہونے کا عکس
مرے سامنے کوئی ڈر ہے مرا
Related posts
-
اختر شمار ۔۔۔ خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں
خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں ہماری ہو گی مگر داستاں کہیں نہ... -
زبیر فاروق ۔۔۔ اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا
اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا غیر نے جو کہا سنا ہو گا... -
عباس علی شاہ ثاقب ۔۔۔۔ ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو
ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو جہالت کی یہاں افراط دیکھو فسادی ہاتھ میں قانون سازی علم...