تھکن کے ٹوٹتے چڑھتے خُمار، تھک گیا میں
قرار! گردشِ لیل و نہار، تھک گیا میں
مرے چراغ، مرے ہم نشیں، خدا حافظ!
مرے سکوت، مرے انتظار، تھک گیا میں
ہواؤ آؤ، اُڑاؤ مری بھی خاک ابھی
اُڑا اُڑا کے یہ گردو غُبار، تھک گیا میں
میں تنگ آگیا ہوں خود سے پھوڑ پھوڑ کے سر
کہ توڑ توڑ کے غم کے حصار تھک گیا میں
نیا زمانہ ، نئے ضابطے ، نئے آداب
اٹھا اٹھا کے تکلف کا بار تھک گیا میں
اگر کسی نے خریدا نہ آج بھی مرا دِن
تو معذرت مرے لیل و نہار، تھک گیا میں