سجاد بلوچ ۔۔۔ منطقیں لاکھ اُٹھا لائو خرد خانے سے

منطقیں لاکھ اُٹھا لائو خرد خانے سے آئنہ بات سمجھتا نہیں سمجھانے سے ہجرتِ خانہ بدوشاں بھی کوئی ہجرت ہے ہم تو ویرانے میں آئے کسی ویرانے سے زندگی ہم تجھے سانسوں میں گنا کرتے ہیں ماپتے کب ہیں مہ و سال کے پیمانے سے بوکھلا جاتے ہیں تھوڑی سے پریشانی میں کام کچھ اور بگڑ جاتا ہے گھبرانے سے ہجرت و ہجر کا جب باب مکمل ہو گا میرا کردار نکل جائے گا افسانے سے

Read More

سجاد بلوچ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تھکن کے ٹوٹتے چڑھتے خُمار، تھک گیا میں

تھکن کے ٹوٹتے چڑھتے خُمار، تھک گیا میں قرار! گردشِ لیل و نہار، تھک گیا میں مرے چراغ، مرے ہم نشیں، خدا حافظ! مرے سکوت، مرے انتظار، تھک گیا میں ہواؤ آؤ، اُڑاؤ مری بھی خاک ابھی اُڑا اُڑا کے یہ گردو غُبار، تھک گیا میں میں تنگ آگیا ہوں خود سے پھوڑ پھوڑ کے سر کہ توڑ توڑ کے غم کے حصار تھک گیا میں نیا زمانہ ، نئے ضابطے ، نئے آداب اٹھا اٹھا کے تکلف کا بار تھک گیا میں اگر کسی نے خریدا نہ آج بھی…

Read More

سجاد بلوچ ۔۔۔۔۔۔۔ تم غلط سمجھے ہمیں اور پریشانی ہے

تم غلط سمجھے ہمیں اور پریشانی ہے یہ تو آسانی ہے جو بے سر و سامانی ہے خواہشِ دید دمِ وصل جو نکلی نہیں تھی لمحہء ہجر میں تجرید کی عریانی ہے کیوں بھلا بوجھ اٹھاؤں میں ترے خوابوں کا میرے آئینے میں کیا کم کوئی حیرانی ہے ڈوب جاتا ہے سرِ شام ہمارا دل بھی یہ بھی سورج کی طرح رات کا زندانی ہے خود کو ہم بیچ کے اک خواب تو لے پائے نہیں تیرے بازار میں کس چیز کی ارزانی ہے کس بھروسے پہ میں ٹکراؤں ہوا…

Read More