مجھے پتا ہے کہ رستہ کدھر تمام ہوا
ترا بھلا ہو کہ میرا سفر تمام ہوا
دلوں کو زنگ لگا ہے فراق شیشوں کو
عجیب کارِ کثافت میں گھر تمام ہوا
بلا سے اب کوئی آئے اُٹھا کے لے جائے
کہ شاہزادی کے اندر کا ڈر تمام ہوا
محبتوں کو بھی دیمک سی کھا رہی ہے عدن
محل تمام ہوا تھا ، ہنر تمام ہوا