شہزاد احمد ۔۔۔ نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے

نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے
وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے

آخرِ کار ہوئے تیری رضا کے پابند
ہم کہ ہر بات پہ اصرار کیا کرتے تھے

خاک ہیں اب تری گلیوں کی وہ عزت والے
جو ترے شہر کا پانی نہ پیا کرتے تھے

اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں
لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے

دوستو! اب مجھے گردن زَدَنی کہتے ہو
تم وہی ہو کہ مرے زخم سیا کرتے تھے

ہم جو دستک کبھی دیتے تھے صبا کی مانند
آپ دروازۂ دل کھول دیا کرتے تھے

اب تو شہزادؔ ستاروں پہ لگی ہیں نظریں
کبھی ہم لوگ بھی مٹی میں جیا کرتے تھے

Related posts

Leave a Comment