رہے بے گھر، مکاں ہوتے ہوئے بھی
نہیں تھے ہم یہاں ہوتے ہوئے بھی
سمجھنا چاہتا ہوں زندگی کو
سو میں چپ ہوں زباں ہوتے ہوئے بھی
اُس آتش کا مزا ہی کچھ عجب تھا
نہ روئے ہم دھواں ہوتے ہوئے بھی
اندھیروں کی صراحت کر رہا ہوں
دیوں کے درمیاں ہوتے ہوئے بھی
مگر میں خوش دکھائی دے رہا ہوں
طبیعت کے گراں ہوتے ہوئے بھی
رکھی قائم ہمیشہ خوش گمانی
کسی سے بدگماں ہوتے ہوئے بھی
عجب ہیں رنگ اس کی چاہتوں کے
نظر آئے نہاں ہوتے ہوئے بھی
تعاقب میں ترے دیکھا ہے ہم نے
نظر کو رایگاں ہوتے ہوئے بھی
ہمارا ساتھ کب دیتے ہیں محسنؔ
ہمارے جسم و جاں ہوتے ہوئے بھی