اور تو کچھ نہیں اِدھر میرا
اِک گزارا ہے خواب پر میرا
میں خبرگیریوں کے نرغے میں
دُور بیٹھا ہے بے خبر میرا
ہے یونہی صرفِ کارِ بے مصرف
یہ زرِ عمر بیشتر میرا
میں تو تیری رضا میں راضی ہوں
تُو ذرا خود خیال کر میرا
راہ ڈھلوان، پائوں لرزیدہ
رائگانی کا ہے سفر میرا
آہ، اے خوشبوئے گُلِ نورس!
تجھ سے رشتہ ہے سانس بھر میرا
Related posts
-
افتخار شاہد ۔۔۔ اب تو سنتا ہی نہیں یار دہائی دل کی
اب تو سنتا ہی نہیں یار دہائی دل کی پہلے کہتا تھا کہ ممکن ہے رہائی... -
محسن اسرار ۔۔۔ پرائے دکھ بھی اپنے ہو گئے ہیں
پرائے دکھ بھی اپنے ہو گئے ہیں سبھی رنگ ایک جیسے ہو گئے ہیں گزرتے ہی... -
سید ریاض حسین زیدی ۔۔۔۔ رات آئی ہے ، سحر کی سوچیں
غزل (خالد احمد کی نذر) ۔۔۔۔۔۔ رات آئی ہے ، سحر کی سوچیں ہم اُجالے کے...