قرض مٹی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے ہاتھوں میں ، بیٹے! کچھ نہیں
تھوڑی سی مٹی ہے
زمیں کہتی ہے یہ مٹی تمھارے جسم پر رکھ دوں
صلہ دے دوں تمھیں چوبیس برسوں کی محبت کا
چُکا دوں سب تمھارے قرض
اِس تھوڑی سی مٹی سے
کبھی جب لڑکھڑایا مَیں
مری لاٹھی بنے تم
گزرتی عمر کے لمحے، جب اپنی گرد لے کر
مری پلکوں پہ لپکے ۔۔۔ اور یہ چاہا
لَویں بینائیوں کی توڑ لیں ساری
چمک اٹھے
مری آنکھوں میں روشن حرف بن کر تم
مری بدنامیوں
ناکامیوں
رُسوائیوں کا زہر تھا جتنا
اُسے اک ۔۔۔ سانس میں
سب پی لیا تم نے
تمھارا اتنا سارا قرض
اِس تھوڑی سی مٹی سے چُکا دوں گا!
یہ ممکن ہی نہیں، بیٹے!
ابھی کارِ جہاں کچھ اور باقی ہے
مجھے گھر لوٹ جانے دو!