یاد
۔۔۔۔
چاندنی راتوں میں پیڑوں کا گھنیرا سایا
پَو پھٹے دور سے مسجد کی اَذاں کا لئہرا
ڈوبتی شام، چراغوں کا جل اُٹھنا کم کم
بھیگے بھیگے ہوئے برسات کے گہرے بادل
نیم خوابی میں برستے ہوئے پانی کی صدا
دُور میدانوں میں گم ہوتی ہوئی پگڈنڈی
لُو سے تپتی ہوئی ویران کوئی راہ گزر
سوکھے سوکھے ہوئے جھڑتے ہوئے پتوں کی کراہ
گھر کی دیوار پہ بیٹھی ہوئی چڑیوں کی چہک
یہ وہ منظر ہیں جنھیں تجھ سے علاقہ تو نہیں
مَیں نے ان میں بھی تری یاد کی ٹیسیں بھر دیں