تُو ازل سے ہے ، ابد تک ہیں زمانے تیرے
جِن و انسان و ملک ، سب ہیں دِوانے تیرے
تجھ کو دیکھا تو نہیں ، پھر بھی سبھی جانتے ہیں
ہر حقیقت سے حقیقی ہیں فسانے تیرے
تُو کہ لوٹاتا نہیں خالی کبھی بندوں کو
پھر بھی ہر دم بھرے رہتے ہیں خزانے تیرے
تُو ہے وہ بحر ، نہیں جس کا کنارہ کوئی
اپنے بندوں کے مگر دل ہیں ٹھکانے تیرے
ذرّہ ذرّہ ہے تِری حمد و ثنا میں مصروف
کیسے گونجیں نہ دو عالم میں ترانے تیرے
بے سہارا تجھے ہونے نہ دیا اے اشرف!
تجھ پہ احسان کیے اِتنے ، خدا نے تیرے