موت کے تعاقب میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت دفتر میں تھا کہ جب اسے بیوی نے ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ اس کی دس ماہ کی بیٹی کی طبیعت خراب ہے، اور اسے رک رک کر سانس آ رہا ہے۔ یہ خبر اس کے لیے خلاف توقع نہ تھی۔ وہ صبح سے بار بار اپنے موبائل فون کی سکرین کی جانب دیکھتا تھا کہ جب وہ روشن ہو جاتی۔ دو تین ایس ایم ایس اس کے دوستوں کی جانب سے تھے جنھوں نے اسے دو دن بعد آنے والی عید میلادالنبیﷺ کی مبارک باد اور دعائوں کا پیغام بھیجا تھا۔ زیادہ تر ایس ایم ایس موبائل کمپنی کی جانب سے آ رہے تھے کہ جو کسی پراڈکٹ کے اشتہار تھے یا پھر موبائل کمپنی کے اپنے مختلف پیکیج تھے جو نہایت پر کشش الفاظ میں مختلف طرح کی پیش کش دے رہے تھے۔وہ ہر بار جھنجھلاجاتا۔ ایک شدید کوفت کے باعث وہ بار باردفتری کام سے اپنی توجہ کھو بیٹھتا۔باس نے دو خط ٹائپ کرنے کے لیے دیے تھے، تین دفعہ وہ ہمت جتا کر انھیں ٹائپ کرنے کے لیے بیٹھا بھی،مگر اس کی توجہ ایک نقطہ پر ٹک نہیں رہی تھی۔ دھیان بار بار گھر کی جانب جا رہا تھا۔ رات شدید سردی کی وجہ سے اس کی دس سال کی بیٹی گڑیا کا سانس رک رہا تھا، گیس نہیں آ رہی تھی، کمرے میں سخت سردی تھی، دسمبر کے دن تھے، اور گڑیا کو سانس کی تکلیف تھی۔ وہ ہر روز Nebulization کے لیے ڈاکٹر کے پاس جا رہا تھا۔مگر رات کے پچھلے پہر گڑیا کی سانسیں اکھڑنے لگتیں۔ وہ اسے سردی سے بچانے کے لیے اپنی بانہوں کے حصار میں لے کر اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتا کہ اپنے جسم کی گرمائش سے اسے سردی سے بچا سکے۔مگر دسمبر کے آخری عشرے کی سردی ایسی تھی کہ سیدھی ہڈیوں میں اتر رہی تھی۔صبح سورج نکلنے سے ذرا پہلے گڑیا کی آنکھ لگی تھی اور وہ نہا کر، ناشتہ کیے بغیر ہی دفترچلا گیا تھا۔ اس کی بیوی صوفے پر ہی لحاف اوڑھے بیٹھے بیٹھے سو رہی تھی۔ ساری رات جاگنے کے بعد اس کی آنکھ لگی تھی۔ اس نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ اسے جگائے اور اس نے ناشتہ دفتر پہنچ کر ہی کیا تھا۔ اس کا دھیان اس جانب سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا کہ معلوم نہیں گڑیا کی کیسی حالت ہو گی؟ وہ فون اس لیے نہیں کر رہا تھا کہ کیا معلوم گڑیا سوئی ہو اور فون کی آواز سن کر جاگ جائے۔عجیب سی بے چینی نے اسے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔اسے بار بار اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
اس وقت ساڑھے گیارہ بجے کا وقت ہو گا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری گھنٹی کی آ واز سے پہلے ہی وہ فون کان سے لگا چکا تھا۔ اس کی بیوی کی روتی ہوئی آواز، پریشانی میں اس کے منہ سے الفاظ بھی نہیں نکل رہے تھے۔بغیر کچھ سمجھ میں آئے، اسے اندازہ ہو گیا کہ گڑیا کی طبیعت سنبھل نہیں پا رہی۔ وہ فون کان سے لگائے اپنی سیٹ سے اٹھا اور تقریباً دوڑتا ہوا سیڑھیاں اترگیا۔ اس کے پاس موٹر سائیکل تھی، بس ہوا کے دوش اڑتا جا رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے اور اس ایک لمحے کی گرہ میں اس کی بیٹی کی زندگی کی ضمانت بندھی تھی۔ٹریفک بہت زیادہ تھی، وہ جیسے تیسے کر کے گھر پہنچا۔محلے کی دو چار عورتیں اس کی بیوی کو تسلی دے رہی تھیں، ایک نے گود میں گڑیا کو لے رکھا تھا اور کوئی دوا اس کے منہ میں چمچ سے ڈال رہی تھی مگر ہر بار دوا اس کے منہ سے باہر گر پڑتی تھی۔ اس نے بیٹی کو اٹھایا، ایک چادر لی اور اس میں بیٹی کو ڈالا، چادر کے دو سِرے گردن کے ساتھ باندھے، اس میں بیٹی کو ڈالا، اور جس تیزی سے وہ گھر آیا تھا اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ وہ بیٹی کو لے کر ہسپتال کی جانب موٹر سائکل پر چل پڑا۔ یوں لگتا تھا کہ سارے شہر کی ٹریفک اسی سڑک پر امڈ آئی ہے۔اس نے کبھی اس بات کا نوٹس ہی نہ لیا تھا کہ شہر میں اتنی زیادہ موٹر سائکلیں، اتنی زیادہ گاڑیاں، اتنے زیادہ چنگ چی رکشے، اور تو اور سڑک سے اتنی زیادہ تعداد میں ایمبولینسیں گزرتی ہیں۔ ٹریفک کا ایک طوفان تھا جو سڑک پر امڈ آیا تھا۔ دس ماہ کی بیٹی کو اس نے چادر میں ڈال کر گلے میں ڈال رکھا تھا اور ہوا کے دوش اڑتا جاتا تھا اور ہسپتال جوں جوں قریب آ رہا تھا، اس کے اوسان بحال ہو رہے تھے۔بیٹی کا جسم گرم تھا، اسے اس بات کا اطمینان تھا۔جب کسی چوک میں اشارے پر رکتا تو چادر کے اندرجھانک کر دیکھ لیتا، بیٹی کی سانس چلتی ہوئی پا کر اسے اطمینان ہو جاتااور وہ پھر ہسپتال کی جانب ہوا میں اڑنے لگتا۔ ہوا میں اڑتے ہوئے اسے یوں لگا جیسے کسی نے اس کے پر کاٹ دیے ہوں، جیسے اس کے بازو منجمد ہو گئے ہوں، جیسے وقت رک گیا ہو، جیسے کرہ ارض پر ہر شے ساکت ہو گئی ہو، جیسے وقت کا وہ ایک لمحہ موت کی گرفت میں آ گیا ہو۔ اور اب اس لمحے کی گرفت میں کل کائنات کی سانس ڈوب رہی تھی، کرہ ارض پر جتنے ذی روح تھے، ان کی نبضیں ڈوب رہی تھیں۔ٹریفک رکا ہوا تھا اور گاڑی کے ساتھ گاڑی جڑی ہوئی تھی، موٹر سائکل پر موٹر سائکل چڑھی ہوئی تھی،اتنا راستہ بھی نہیں مل رہا تھا کہ ہوا بھی درمیان میں سے گزر سکے، وہ بھلا کیسے گزر سکتا تھا۔ ٹریفک کا پھنسنا روز کا معمول بن چکا تھا، صرف دو سو میٹر کے فاصلے پر ہسپتال تھا، مگر یہ دو سو میٹر دو سو کلو میٹر بن گئے، ٹریفک چیونٹی کی رفتا ر سے بھی چلنے کی حالت میں نہیں تھی۔ اس نے بھی اسے معمول کا ٹریفک جام سمجھا اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، موٹر سائکل وہیں چھوڑا اور موٹر سائکلوں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا کسی طرح فٹ پاتھ تک پہنچا کہ جہاں پیدل چلنے والوں کا ایک جم غفیر امڈا پڑا تھا، وہ ان کے درمیان میں سے راستہ بناتے ہوئے ہسپتال کی جانب جا رہا تھا، جب چوک میں پہنچا کہ جہاں سے مڑنے کے بعد ہسپتال کا مین گیٹ صرف پچاس میٹر رہ جاتا تھا، اس پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ ٹریفک جام نہیں تھا بل کہ کسی وی۔وی۔آئی۔پی کے لیے ٹریفک کو روکا گیا تھا اور اس کی وجہ سیکیورٹی تھی۔ اس نے سیکیورٹی آفیسر سے نہایت مختصر لفظوں میں بیٹی کی طبیعت کی خرابی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہسپتال جانے کی اجازت چاہی مگر اس پتھر کے بنے بے حس انسان پر فرض شناسی کا ایسا بھوت سوار تھا کہ اسے اپنے جیسے انسان کی زبان سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ سرکار کی زبان بول رہا تھا، ایک خوف زدہ، ڈرے ہوئے فرض شناس سرکاری ملازم کی زبان بول رہا تھا، ’’کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے، تمھاری جگہ اگر میری بیٹی بھی ہوتی، تب بھی اسے یہیں سڑک پر اس آخری لمحے کا انتظار کرنا پڑتا کہ وی۔وی- آئی-پی افتتاح کے بعد یہاں سے چلا نہیں جاتاــ‘‘
اس کے پاس وقت بہت کم تھا۔ اس نے مزید بحث نہیں کی، ہسپتال میں داخل ہونے والے دوسرے راستے کی جانب بھاگا۔وہاں بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ وہاں بھی ویسا ہی انسان سیکیورٹی پر مامور تھا۔ ٹریفک رکا ہوا تھا۔اس نے اپنے ہاتھوں میں بیٹی کو اٹھایا ہوا تھا اور وہ ننگی سڑکوں پر بھاگ رہا تھا۔اور اس کے بھاگنے کا منظر ٹیلی ویژن چینلز پر دکھایا جا رہا تھا، سارا شہر ہی نہیں، سارا ملک دیکھ رہا تھا، ایک باپ اپنی دس ماہ کی بیٹی کو دو ہاتھوں میں اٹھائے، صرف ہسپتال ڈاکٹر کے پاس پہنچنا چاہتاتھا، وہ ڈاکٹر جو صرف پچاس قدم دور تھا اور اس کی بیٹی کو بچا سکتا تھا مگر ڈاکٹر اور اس کی دس ماہ کی بیٹی کے درمیان موت حائل ہو گئی پھر یہ فاصلہ کیسے ختم ہوسکتا تھا۔
وی وی آئی پی چلا گیا، افتتاح ہو گیا، مگر تب تک اس کی بیٹی اس دنیا سے دور جا چکی تھی کہ اس کا واپس آنا ممکن نہ تھا، کوئی بھی اسے واپس نہیں لا سکتا تھا، وقت واپس نہیں لوٹ سکتا تھا، مگر وہ اپنی دس ماہ کی مردہ بیٹی کو ہاتھوں میں اٹھائے سڑکوں پر شام تک بھاگتا رہا، ہسپتال کا راستہ کھل گیا تھا، ٹریفک معمول پر آ گیا تھا، مگر وہ ایک سڑک سے دوسری سڑک پر، ایک گیٹ سے دوسرے گیٹ تک بھاگتا رہا، مگر ہسپتال کے اندر جانے کا اسے راستہ ہی نہیں مل رہا تھا، اسے سب کچھ نظر آتا تھا بس داخلی دروازہ دکھائی نہیں دیتا تھا، یہاں تک کے شام کے غروب ہوتے سورج نے اپنی زنبیل کے اندر سب حقائق کو اندھیرا پھیلنے تک چھپا لیا۔