کہِیں اُس طرف بھی رات نہ ہو!٭ ۔۔۔ حامد یزدانی

کہِیں اُس طرف بھی رات نہ ہو!٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِس طرف کمرا خاموش ہے۔
شام کا پردہ گرتا ہے اور وہ دھڑام سے بستر پرآ گرتا ہے۔
غیر ارادی طور پر ہی اس کا بایاں ہاتھ تپائی کی طرف بڑھتا ہے اور ٹیبل لیمپ روشن کر دیتا ہے۔ زیرو واٹ بلب کا زردی مائل اجالاگویا منہ چڑانے لگتا ہے، تپائی پر اونگھتی کتاب کا یا شاید اُس میں قید رات کا۔جانے کیا سوچ کر وہ کتاب اٹھا لیتا ہے اور جانے کیوں وہی صفحہ کُھلتاہے جس پر سِرے سے صفحہ نمبر ہی درج نہیں۔ پڑوسی ورق پر دو سو اکیس لکھا دیکھ کر اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی نظریں صفحہ نمبر دو سو بیس سے دوچار ہیں۔نگاہ اب تحریر کے عنوان سے متعارف ہوتی ہے:
آبی رنگوں سے بنا ایک فن پارہ: فرانس کے سیاہ فام تارکینِ وطن کے لیے
نیو رومن بولڈ، سولہ پوائنٹ،اٹیلیسائزڈعنوان سے ذرا نیچے شاعر، ایریل بلیک میں ملبوس، جارج ایلیٹ کلارک۔ اور پھرنگاہ دھیرے دھیرے سطروں کی ڈور سے الجھنے لگتی ہے:
کیلنڈر تمہارے نزدیک کیا ہیں؟
اورایٹلس؟
وقت بی آر ای ٹی جی این ای وہ لفظ کے ہجے کرتا ہے میں سہانی جاز دھن کا نام ہے

تم گہرے پردوں میں
قوسِ قزح سے اُوپر کہِیں۔۔۔
جہاں تم دھات سے بنے انسان ہو جنھیں دل درکار ہیں
ایسے دلیر انسان ہو جو ہمت کے طلب گار ہیں
کھیتوں میں کھڑے ایسے بجُوکے ہو جنھیں ایسے ذہنوں کی ضرورت ہے جو ان کے اپنے ہوں
۔۔۔جغرافیہ نام ہے پیرس کی بھوری بھوری لڑکیوں کا
موسمِ گل میں بے تاب سین کے پہلو میں ۔جرمن میں اس دریا کو شاید زائنے کہہ کر مخاطب کیا جائے
ْ۔۔۔خون بہتا ہوا۔۔۔
تن تنہا، بہادر، کرائے کے بوسیدہ کمرے
افریقی نوآبادیاں
جازفین بیکر، تمہارے بھومپو والے فونو گرام پر
کچوکے لگاتی ہوئی وائین
تمہیں چھوڑ دیتی ہے بے یار ومددگار
متروک گاڑیوں کی طرح
یو۔ایس۔اے کی کسی تنہا، اداس جھونپڑ پٹّی میں
سرحدیں تمہارے نزدیک کیا ہیں؟
اصلی سیون لیگ سینڈل پہنے
تم مونے کے نیلوفر کو روندتی چلی جاتی ہو۔۔۔

وہ چلی جاتی کیوں لکھتا ہے ؟ چلے جاتے کیوں نہیں؟اردو غزل کی دین،کیا ذہنی تربیت ہے!پھر ذہن لمحہ بھر کو فرار ہو جاتا ہے کہیں اُدھر، اس پار،وقت کے اس پار یا زندگی کے اس پار۔اُس پار ہے کیا؟ کچھ صاف سجھائی نہیں دیتا۔
فن کار مونے سے اس کا تعارف بھی ایک فنکار دوست نے ہی کروایا تھا۔ویو کارڈ پر چھپی امپریشنسٹ مونے کی آئل پینٹنگ ’’ سن سیٹ‘‘ دکھا کر۔تاثر پسند فرانسیسی فنکار ! کچھ ایسا ہی کہا تھا دوست نے۔
ذہن بھی عجیب چیز ہے۔ایک لمحے کے پتہ نہیں کتنے ہزارویں حصے میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔کہاں سن ۲۰۱۹ء اور کینیڈا کا شہر ہیملٹن اور کہاں سن ۱۹۸۹ء اور جرمنی کا شہر ڈُوسل ڈورف:صوبہ رائن لینڈ ویسٹ فیلیا کا دارالحکومت اور اس کی کیونگ آلے ۔۔۔ شاہی سڑک، کچھ ایسا ہی مطلب بنے گا اس کا غالباً۔
ڈوسل ڈورف تو وہ اپنے ایک فنکار دوست کے ساتھ سوئٹزر لینڈ کا ویزہ لینے گیا تھا مگر زیادہ وقت بس اِدھر اُدھر شہر گردی کی نذر ہوا۔وہیں ایک سوونیٔرزشاپ میں دیکھا تھا اس نے مونے کی پینٹنگ والا ویو کارڈ اور اس کے دوست نے بتایا تھا اس عظیم فن کار کی فنی خوبیوں کے بارے میں ۔ کیا بتایا تھا؟ کچھ یاد نہیں ۔۔۔’’سن فلاروز‘‘ والا کارڈ بھی تھا وہاں۔ مگر وہ تو وین گوخ کی پینٹنگ ہے ناں؟ ہاں، وہ اس نے ایمسٹرڈیم میں دیکھی تھی وین گوخ میوزیم میں۔کہتے ہیں اب وہ کچھ دوسری پینٹنگز کی طرح دنیا بھر میں آوارہ گردی نہ کر سکے گی۔ بوڑھی اور کمزور ہو گئی ہے ناں۔کیا فن بھی ریٹائر ہو سکتا ہے؟۔۔۔ نہ جانے اورکتنے فن پارے ہوں گے کہ اب بھی گھوم پھر رہے ہوں گے۔سیلانی فن پارے!
جانے اسے’’سن سیٹ‘‘ اور ’’سن فلاورز‘‘ کیسے یاد رہ گئیں حالانکہ کتنا کچھ ہے جو اب یادوں کی چوبی تختی سے دُھلتا جاتا ہے ، کوٹ عبداللہ شاہ پرائمری سکول کے بچے کے کچی سیاہی سے لکھے حروفِ تہجی کی طرح ۔۔۔ گاچی کے ساتھ ساتھ ۔۔۔کیا یہ بھی سرجری کی عطا ہے؟مگر ڈاکٹر تو کہتے تھے کہ لوکل انستھیزیا کے اثرات چند ماہ میں زائل ہوجاتے ہیں ۔۔۔ مگریہاں تو مدّت ہونے کو آئی اور دھند ہے کہ چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔۔۔ کیایہ واقعی انستھیزیا ہی کا شاخسانہ ہے یا پھر سانسوں کی میراتھن جیتنے میں کوشاں عمر کا واویلا ۔۔۔ جو وقت کی جِیت میں زندگی کی ہار پانے کو اتنی باؤلی ہوئی جاتی ہے! وہ محسوس کرتا ہے کہ غزل تو کجا وہ نثر میں بھی کوئی ڈھنگ کی ایک سطر نہیں لکھ پایا۔ اسے خود پر ترس آنے لگتا ہے۔خود ترسیدگی! اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو ۔۔۔ وہ سوچتا ہے۔۔۔ وقت جانے کب کا،کس گھاٹ لگ چکا!۔۔۔ کچھ سراغ نہیں ملتا۔
وقت ندیم کی سطریں ۔۔۔
اپنے پسندیدہ شاعر کے انتقال کی خبر سن کر اسے ادھورا سا مصرع سوجھا تھا ۔۔۔ اور بس۔ذہن تھا کہ نظم کی راہ سے اُتر کر سوالوں کی کسی اور ہی پگڈنڈی پر ہو لِیا تھا۔جواب! جواب نہ جانے کس جنگل میں گم تھے! ہاں، شجر شجر ایک دو رویہ اداس سی پینٹنگ بنتی جارہی تھی، رنگ آبی تھے یا روغنی؟ اسے یاد نہیں:

خواہشیں کیا ہیں؟
رات کی اونگھتی لہروں میں
نیو کیمپس پُل پر
سائمن اور گارفنکل کی دھن
مضطرب پانیوں پر لہکتا پُل
بوڑھے گراموفون پر
نارنجی پھولوں کے سائے میں!؟

رات میں، سائے میں۔۔۔ کچھ عجیب سا ہے۔ ہے ناں؟۔۔۔ بات بنتی نہیں ۔۔۔ کچھ اور ۔۔۔
کیوں؟ کیا رات میں سائے نہیں ہوتے ؟ وہ سوچتا ہے یا شاید پوچھتا ہے۔۔۔مگر کس سے!۔۔۔ہاں، سائے کا تصور شاید دھوپ کی ضد میں زیادہ اجاگر ہوتا ہے۔۔۔ اردو شاعری کی ذہنی تربیت پھر سے اس کی رہنمائی کا رضاکارانہ فریضہ انجام دینے آ دھمکتی ہے۔
۔۔۔ تو سایہ دن میں ہونا چاہیے !
نہیں،نہیں دن میں سائے نہیں ہوتے، بس پرچھائیاں ہوتی ہیں۔ پرچھائیاں۔۔۔ساحر کا دیوان، ساحر کا مکان ! کمال ہے بھئی یہ ذہن بھی!چلا تھا خواہش کے ساحل سے اور آن پہنچا پرچھائیوں کے دیس۔
ہاں تو کیا تھا وہ؟۔۔۔کیمپس پُل۔۔۔رات۔۔۔سائمن۔۔۔اور۔۔۔
ہاں، ہاں۔۔۔ وہ۔۔۔ کچھ
پرانے فونوگرام پر
کیمپس پُل پر
ہمیں تن تنہا، اداس۔۔۔سائیکل کا خیال تک نہ آئے
نارنجی پھولوں کے سائے میں
جو درخت سے ٹیک لگائے آنے والے سفر کا سوچ رہی ہے
کیا واہیات ہے! یہ نہیں تھا۔
سفر کیا ہے؟ ہاں، سفر کیا  ہے ـ
سوچ آگے بڑھتی ہے
گورنمنٹ کالج کی ڈھلوانی راہداریوں سے
گنے کی ریہڑی تک
نمک، برف، گرد اور مٹھاس کی آمیزش!
آغازِ تعطیلات سے ایک دن پہلے
ایک طویل پُر لطف سنسنی
پیسے کون ادا کرے گا؟ یہ طے نہیں۔
ٹی ہاؤس سے کم کم تک کی سیر؟
وہ برجیس صاحب ہیں: ایک سرگوشی
کون برجیس صاحب؟ کہاں؟
سینئر صحافی ہیں۔ تمہارے پیچھے والے میز پر۔ جڑواںسوال ۔ جڑواں جواب۔
کینیڈا، جرمنی، لاہور،نیو کیمپس، کالج۔۔۔ ارے نہیں صاحب، ایسی بھی بات نہیں۔ ایک ترتیب ہے ضرور خیال کی، اس بے ترتیب رو میں بھی۔۔۔ اور میں نے یہ ترتیب پا لی ہے۔۔۔ یوریکا ۔۔۔۔ یوریکا ۔۔۔!
ذہن کا سفر گویا معکوس انداز میں ہو رہا ہے۔ حال سے ماضی کی طرف۔ اُلٹا سفر بھئی اُلٹا۔
تو اس حساب سے اب اسے سکول جانا چاہیے۔ مزنگ کے ننھے منے، کل چھ کمروں پر مشتمل ،حال ہی میں قومیائے گئے ہائی سکول کی طرف جو ایک دور میں اسے پوری کائنات محسوس ہوتا تھا۔اور اب پوری کائنات اسے۔۔۔!

جس داستاں کا مرکزی نقطہ ہے کائنات
اس داستاں کا ثانوی کردار میں بھی ہوں

اسے یاد آیا، یہ شعر سن کر ایک نقاد دوست نے برسوں پہلے اس کی کم فہمی کا خوب سراغ لگایاتھاکہ داستاں کا مرکزی نقطہ کائنات نہیں بلکہ انسان ہے اور یہ کہ جب اسے یہ راز سمجھ آجائے گا تب ۔۔۔۔ تب ۔۔۔ تب پتہ نہیں کیا ہو جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔
تو اب کیا؟ چلئے صاحب، سمجھ آگیا ہے مجھے یہ راز ۔۔۔ یہ عقدہ کشائی بھی ہو چکی ۔۔۔ یوریکا ۔۔۔ یوریکا ۔۔۔تو اب کیا؟ وہ سوچتا ہے۔
اب کیا؟ کچھ بھی نہیں ۔۔۔
خط لکھ رہے ہو کیا؟ کوئی نہیں پوچھتا۔
نہیں، نہیں۔۔۔بس یونہی۔۔۔ایک تحریر سی۔۔۔یادیں۔۔۔شاید افسانہ۔۔۔پھر بھی وہ جواب دیتا ہے۔
میاں، بہتر ہے افسانہ نگاری کا کام تم افسانہ نگاروں پہ چھوڑ دو، یہ کتاب پڑھو اور سو جاؤ۔دوبیس۔۔۔نہیں، نہیں دو اکیس ہو گئے ہیں۔صبح دفتر بھی تو جانا ہے۔سو جاؤ۔
مگر سوؤں کیسے؟سونے کے لیے اندھیرا چاہیے۔
تو ٹیبل لیمپ بجھا دو ناں۔
ٹیبل لیمپ؟ ٹیبل لیمپ بجھا دیا تو رات سو جائے گی۔۔۔اور رات سو گئی تو۔۔۔! تو۔۔۔اُس طرف۔۔۔
اونگھتی لہروں میں
۔۔۔خون بہتا ہوا۔۔۔
نیو کیمپس پُل پر
۔۔۔کرائے کے بوسیدہ کمرے
سائمن اور گارفنکل کی دھن
تمہارے بھومپو والے فونوگرام پر
ایمسٹر ڈم۔۔۔لاہور۔۔۔ڈوسل دورف
مو نے۔۔۔سن سیٹ
نارنجی پھو لو ں کے سا ئے
مت رُوک گا ڑیو ں کی طر۔۔۔
کتاب خوابیدہ ہاتھ سے لڑھک کر فرش پر ادندھی پڑی ہے ۔رات اب آزاد ہے ۔وہ سرسراتے ہوئے پھسل جاتی ہے اُس طرف ادھ کھلی کھڑکی سے اُس پار۔ اب اسے بے سمت گردی سے کوئی نہیں روک سکتا۔سیلانی رات!
کمرا خاموش ہے
رات مفرور
ٹیبل لیمپ مگر جل رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭یہ دیکھنا ہے، کہِیں اُس طرف بھی رات نہ ہو ( نوید صادق)

Related posts

Leave a Comment