رشیدہ رضویہ
رشیدہ رضویہ کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جس کی وہ حق دار تھیں۔ خاص طور پر اُن کا ناول ’’گھر میرا راستے غم کے‘‘ سراہا جانا چاہیے تھا۔ اُن کے ناولوں میں تاریخ اور فکشن ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلنے کے لیے بعض اوقات ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ابتدا میں رشیدہ رضویہ کے افسانوی مجموعے ’’شہر سلگتا ہے‘‘،’’کھنڈر کھنڈر بابل‘‘ (۱۹۵۹ء)کے نام سے سامنے آئے۔ بعد ازاں انہوں نے تین ناول لکھے:َ جن میں’’لڑکی ایک دل کے ویرانے میں‘‘ (۱۹۶۷ء) میں ’’اسی شمع کے آخری پروانے‘‘ (۱۹۷۰ء) اور ’’گھر میرا راستے غم کے‘‘(۱۹۷۱ء) میں شائع ہوا۔اُن کی افتادِ طبع انہیں مشرقِ قریب اور مشرقِ وسطی کی فضاؤں میں لیے لیے پھرتی تھی۔ پہلے دو ناول عراق کی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں پاکستان اور عراق دونوں ملکوں کی سیاست اور تاریخ کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔’’لڑکی ایک دل کے ویرانے میں‘‘ عراق کی سیاست کا احاطہ کرتا ہے۔ انہوں نے ہمارے خوابوں کے الف لیلوی بغداد سے لے کر عصر حاضڑ کے تباہ حال اور درماندہ و اتھل پتھل بغداد کی زندگی کو موضوع بنایا ہے۔ جس کے کرداروں میں امیرہ،سمیرا، نعمان اور ابصال انقلابی جدوجہد میں شامل ہیں۔ امیرہ پاکستانی ثقافت سے دلچسپی رکھتی ہے، اس لیے پاکستان آتی ہے۔ اس ناول میں شاہ فیصل کے قتل اور ۱۹۶۵ء کی جنگ کے واقعات بھی دیے گئے ہیں۔ ان کا دوسرا ناول ’’گھر میرا راستے غم کے‘‘ عراق کے انقلاب سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں سرزمین فلسطین اور یہودیوں کی طویل جدوجہد کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ رشیدہ رضویہ نے کئی سفر کیے تھے۔ مشرق وسطیٰ کی تاریخ سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ انہوں نے جہاں جہاں سفر کیا،ان کے کرداروں کا تعلق بھی وہیں سے ہے۔
رشیدہ رضویہ اُردو ناول کی دنیا میں اس طور سے قابل ذکر ہیں کہ انہوں نے اپنے ناولوں کی سرحدوں کو بیرون ملک تک توسیع دی ہے اور بالخصوص عراق کی اندرونی سیاست کے حوالے سے لکھا ہے۔ مختلف نظریات اور سیاست کی گرم بازاری سے عامۃ الناس کی سماجی و معاشرتی اور اقتصادی مفادات بری طرح مجروح ہوتے ہیں اور ان کے دل کاچین و سکون برباد ہوکر رہ جاتا ہے بعض اوقات یہ سیاست اس قدر ظالم ہوتی ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں کو لہان کر دیتی ہے۔
اُن کے ابتدائی دور کے افسانے ایک اعلیٰ سوسائٹی کی ایسی لڑکی کے مشاہدات محسوس ہوتے ہیں جو ہر بد صورت چیس کو نہ صرف یہ کہ نا پسند کرتی ہے بل کہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کو بھی کھری کھری سناتی ہے۔اُن کے ہاں اونچے طبقے کی زندگی جزئیات کے ساتھ ملتی ہے۔اُن کی بیانیہ میں عجیب سرشاری نظر آتی ہے۔اایسا لگتا ہے کہ وہ ترقی پسندی کو بھی خاص پذیرائی نہیں بخشتی اور انسان کی لغزشوں اور کوتاہی سے بھی در گزر کرنے کو تیار نہیں۔ایک بات اور جس کی طرف ادب کے جید ناقدین نے تروجہ دلائی کہ موصوفہ سماجی اور معاشرتی ارتقا کی بجائے اُس بیتے ہوئے کل کی طرف مراجعت چاہتی ہیں جس میں آسودگی اور سکون ہی سکون ہو۔افسانہ ’’میں اُداس ہوں‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے جو یہ واضح کرتا ہے کہ وہ اپنے عہد اور باہر کی دنیا کو کیسے پینٹ کرتی ہیں:۔
’’ہر ذی شعور انسان کی طرح میں نہیں چاہتی کہ بار کی مسموم فضا میرے کمرے کو بھی مسموم کر دے،یوں بھی اپنے کمرے سے باہر جھانکنے کی خواہش میرے دل میں کبھی پیدا نہیں ہوئی۔بھلا میں باہر کیوں جھانکوں؟ باہر کیا ہے؟ غلاظت، گندگی، آلائشات، کیڑے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
ناول’’اسی شمع کی آخری پروانے‘‘ میں انہوں نے کشمیری کردار جہاںدیدہ بیگم کو پیش کیا ہے۔ یہ ایک سیاسی کردار ہے، جو خود غرضی، مفاد پرستی اور سیاست کے خون سے دل کشید کرنے کی خواہش مند نہیں ہے رشیدہ نے انھی ۱۹۷۱ء تک کے سیاسی حالات کا احاطہ کیا ہے۔ جہاں دیدہ بیگم کا انجام یہ دکھایا جاتا ہے کہ انہیں اس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر گرفتار کرلیا جاتا ہے، پاگل قرار دے کر پاگل خانے بھجوا دیتے ہیں،جہاں سے وہ بڑی مشکل سے باہر لائی جاتی ہے۔اُن کے افسانوں کا یاک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ کئی معرتبہ مردوں کے کردار کو اپنی سفآاکی سے پیش کرتی ہیں کہ تمام فکشن نگاروں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں اور بات خلافِ واقعہ بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔
رشیدہ رضویہ کے فن کا مجموعی طور پر جائزہ لینے کے بعد ہم اس حقیقت کا بلا خوف و خطر اظہار کر سکتے ہیں کہ اُردو ناول میں سیاسی رجحانات اور اس کے بھیانک نتائج کی تصویر کشی میں اپنا مقام رکھتی ہیں۔ شاید ہی کوئی دوسرا ناول نگار ہوں جس نے عراق میں بیٹھ کر نظریاتی آویزش میں ان کے نوجوان کرداروں کی سرگرمیوں اور ان کے معاشرے کی تہذیبی و تمدنی اور ثقافتی زندگی کی بھر پور عکاسی کی ہو۔ شاید اس لیے اپنے مضمون میں ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا تھا کہ جدید دور کے بغداد کے خطے کے عوام کی قسمتوںکے بارے میں قارئین کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔