خیال نال موت ہے، خیال نال زندگی
جوگی جہلمی
…………………………………………..
اللہ دتہ المعروف جوگی جہلمی،بیسویں صدی کے پنجابی زبان کے نہایت اہم شاعر تھے جنہوں نے نصف صدی سے زاید عرصہ شعروادب میں اپنا نام اور مقام بنائے رکھا۔ پنجاب بل کہ پاکستان میں ہونے والا کوئی قومی اور عالمی سطح کا مشاعرہ ایسا نہ تھا کہ جہاں جوگی جہلمی کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ نہ بلایا جاتا۔ وہ ایک جانب اگر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہونے والے مشاعروں کی جان تھے تو دوسری جانب ادبی تنظیموں کے زیر اہتمام ہونے والے مشاعروں میں بھی اُن کو لازمی طور پر بلایا جاتا۔ اس کی وجہ ایک جانب اُن کی زور دار شخصیت، اسرار سے بھری لال انگار آنکھیں، بڑی بڑی مونچھیں، جوگی جیسا حلیہ اور دوسری جانب اُن کی شاعری کی مقبولیت، اُن کے سامعین کا وسیع حلقہ تھا جو ہر مشاعرے میں اُن کی موجودگی کا تقاضا کرتا تھا۔جوگی جہلمی نہایت شفیق اور دوسروں کا احترام کرنے والے پنجابی زبان کے قد آور شاعر تھے۔ جہلم کو ہمیشہ اُن پر فخر رہے گا اور جہلم ہمیشہ اُن کے نام سے جانا جاتا رہے گا۔میں نے 1980ء میں جب جہلم کے علمی و ادبی حلقوں میں جانا شروع کیا، جوگی جہلمی سے میری ملاقاتیں ہمدانی ٹی سٹال اور مشین محلہ کے ایک ہوٹل میں تسلسل سے ہوتی رہیں۔وہ ہمیشہ بڑی محبت سے ملتے۔بہت کم گفتگو کرتے۔وہ اپنے ہم عمروں اور نوجوانوں کے ساتھ ایک جیسی محبت کے رشتے سے بندھے ہوئے تھے اور یہی بڑے لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔وہ اپنے آہنگ اور اسلوب کی روایت کے آخری شاعر تھے۔ انجم سلطان شہباز نے ”تاریخ جہلم“ میں لکھا ہے کہ ”جوگی جہلمی، 1903ء میں کھڑی شریف، میرپور آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے، کم عمری میں آپ اپنے والدین کے ساتھ جہلم آ گئے۔15 سال کی عمر میں آپ نے شاعری شروع کی۔آپ کی وفات 26 مارچ 1998ء کو ہوئی اور تدفین جہلم کے مرکزی قبرستان میں ہوئی“۔
جوگی جہلمی نے بیسویں صدی کے نصف اول میں شاعری کا آغاز کیا۔ ابتدا میں آپ کے کلام میں وارث شاہ اور بلھے شاہ کا رنگ نمایاں ہے۔ ”سوہنی“ نظم میں سراپا نگاری اور ”نویں وِیانڈر“ میں سماجی مسائل اور انسانی رشتوں کو اسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے مگر بعد میں جب عملی زندگی کے ساتھ سیاسی اور سماجی منظر نامہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے تو زندگی اور موت اور جہلم کا لینڈ اسکیپ ایک مختلف تناظر سے آپ کی شاعری کا حصہ بنتا ہے۔ اُن برسوں میں تحریک آزادی عروج پر تھی اور مسلمانوں کے الگ ملک کے قیام کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا، جہلم میں لالہ لجپت رائے ایک سیاسی رہنما اور انقلابی کی حیثیت سے دریائے جہلم کے کنارے واقع دھوبی گھاٹ کے کھلے میدان میں سیاسی جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔ ان برسوں میں ایک جانب علامہ اقبال اردو میں اور دوسری جانب استاد دامن، درشن سنگھ آوارہ اور جوگی جہلمی پنجابی زبان میں آزادی کی نظمیں ان بڑے سیاسی اجتماعوں میں پڑھنے آتے تھے، آپ کی پرجوش نظموں سے جلسے میں شامل ہندوؤں اور مسلمانوں کے خون کی گردش تیز ہو جاتی اور نئے عزم اور ولولے بیدار ہوتے۔ ان سیاسی جلسوں اور انگریزی استعمار کے خلاف نظمیں پڑھنے پر جوگی جہلمی کو پسِ زندان بھی جانا پڑا۔ مگر تب جوگی جہلمی مضبوط اور توانا اعصاب کے مالک تھے۔ عمارتوں کی تعمیر کا کام کرتے تھے، ایک راج اور مستری کے طور پر مکان بناتے تھے، مزدوری کرتے تھے اور رات جب دوست احباب اکٹھے ہوتے، بانسری کی ہوک پوٹھوہار کی چاندنی راتوں میں اٹھتی تو جوگی جہلمی سے لوگ شاعری سننے کی فرمائش بھی کرتے۔ ان کی شاعری کی خوشبو آہستہ آہستہ پھیلتی چلی گئی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چہار عالم ادبی دنیا میں جوگی جہلمی کا نام گونجنے لگا۔
جوگی جہلمی استاد دامن، استاد فضل شاہ نواں کوٹی اور فقیر احمد فقیرسے بھی متاثر تھے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی مقبول اور زبان زدِ عام پنجابی نظموں کا آہنگ اور موضوعات اپنے ان ہم عصروں یا کچھ سینئر شعرا کے قریب قریب تھا۔جوگی جہلمی کی معروف نظموں ”چاننی“، ”پہاڑی“، ”بچہ“ و دیگر میں جس طرح لفظوں کا انتخاب، قافیے کا مسلسل مصرع میں استعمال اور اس کے سبب پیدا ہونے والی نغمگی سے جو کیفیت پیدا ہوتی تھی، اور اس پر آپ کا ان نظموں کو ڈوب کر پڑھنے کا جو انداز تھا، اس سے مشاعرے میں سامعین پر ایک سحر طاری ہو جاتا تھا۔ وہ سب آپ کے انداز میں آپ کے ساتھ مل کر یہ مصرعے دہرانے لگتے۔یہی وہ سحر تھا جس نے آپ کو مشاعرے کی بنیادی ضرورت بنائے رکھا۔ اسی آہنگ میں آپ کی ایک اور معروف نظم کے یہ مصرعے دیکھیے:
گئے نگاہ دے تیر، کلیجہ چیر، وگاواں نیر، پھراں دلگیر، تری تصویر مری جاگیر ہے
تو ہے صاحب کمال، میں خستہ حال، نڈھال، کو جام پیال، وصال، مینوں اکسیر ہے
جوگی جہلمی کی نظم ”زنجیراں“ کے ان مصرعوں کو آپ پڑھتے جائیے، آپ پر اور سننے والے پر ایک عجیب سی طلسماتی کیفیت طاری ہوتی چلی جائے گی۔ اسی طرح آپ کی نظم ”پہاڑی“ جو آگے چل کر ایک بڑی علامت کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اپنے اندر انسانی جبلت کی کمینگی اور حرص و ہوس کو پیش کرتی ہے کہ ایک جانب معصومیت ہے اور دوسری جانب چالاکی اور کمینگی، اپنی انتہا پر دکھائی دیتی ہے۔ جوگی جہلمی کی نظموں کا منظر نامہ اور موضوعات اگر چہ دیہی معاشرت اور دیہی زندگی کی ایک خوبصورت پیش کش لیے ہوئے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظموں اور لفظوں میں پوٹھوہار کے قدرتی منظرنامہ کی خوشبو، رنگ اور آہنگ نمایاں طور پر ان کی پہچان بنتے ہیں۔آپ کی نظم ”بچہ“ میں بھی ایسا ہی ہے کہ ابتدا میں صحن میں ایک ہنستے ہوئے بچے کو ایک گیند کے ساتھ بے فکری سے کھیلتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، نظم جوں جوں آگے بڑھتی جاتی ہے، بڑے کینوس پر وہ حیات و کائنات کے ساتھ جا کر جڑ جاتی ہے۔جوگی جہلمی کو منافقت سے نفرت تھی، وہ سچا اور کھرا شخص تھا۔زندگی کے بارے میں اس کا نقطہ نظر تھا کہ نہ تو مال و متاع اور اہل وعیال کے ساتھ زندگی بنتی ہے، نہ ہی ماں باپ اور بیوی زندگی کا سبب ہیں، زندگی اور موت دونوں کی حیثیت جوگی جہلمی کے نزیک کچھ نہ تھی، اور وہ کہتا تھا، ”خیال نال موت ہے، خیال نال زندگی“۔
جوگی جہلمی نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ وہ عام دیکھنے میں بھی ایسے لگتے جیسے کوئی جوگ لیے ہوئے ہیں۔ اُن کی بڑی بڑی مونچھیں، لال انگار آنکھیں اور سرخ و سفید رنگ کو نگاہ بھر کر دیکھنے کا کسی کو یارا نہ تھا۔ انہوں نے اگر چہ تمام عمر نہایت کسمپرسی میں گزاری، غربت اور عسرت نے اُن کو زندگی کے آخری ایام تک گھیرے رکھا مگر انا اور خود داری کے ایسے پیکر تھے کہ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا، عام محفلوں میں خاموش اور چپ چاپ بیٹھے رہتے مگر شخصیت کا ہالہ ایسا جاندار تھا کہ خاموشی کے باوجود محفل میں انکی موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دور سے یوں لگتا کہ انہوں نے اپنے ارد گرد ایک حصار بنا رکھا ہے جس کی فصیلیں بہت اونچی مگر ایک بار قریب ہو جانے پر پتہ چلتا تھا کہ وہ نہایت، شفیق ادب نواز اور محبت کرنے والی شخصیت ہیں۔
آئی کے گجرال نے اپنی سوانح حیات مطبوعہ 2011ء میں لکھا ہے کہ جب 1982ء میں وہ اپنی بیگم شیل کے ساتھ پاکستان آئے تو اپنی جنم بھومی جہلم بھی گئے، اپنی جائے پیدائش بھی دیکھی، بچپن کے ساتھیوں سے بھی ملے۔ سیٹھ اللہ دتہ ادیب نے اُن کے لیے ایک شاندار کھانے اور ضلعی انتظامیہ نے ایک زبردست مشاعرے کا اہتمام کر رکھا تھا۔کھانے پر آئی کے گجرال کی ملاقات جوگی جہلمی سے ہوئی۔ ان یادوں کو اپنی خود نوشت میں انہوں نے اس طرح لکھا ہے، ”بڑے قد کاٹھ کے جوگی جہلمی، ایک مقامی شاعر سے جب میں گلے ملا تو اس نے پوچھا: کیا میں نے اُس کو پہچانا ہے؟ اس کی شباہت اور آواز بوڑھی ہو چکی تھی۔ میں نے کہا مجھے اب بھی وہ سیاسی نعرے اور آپ کی نظمیں جو برطانوی استعمار کے خلاف تھیں، یاد ہیں جو آپ جوبلی گھاٹ کے عوامی اجتماع میں پڑھا کرتے تھے، جس کی وجہ سے آپ کو دو سال کے لیے جیل جانا پڑا“۔آئی کے گجرال کی جانب سے جوگی جہلمی کے لیے یہ الفاظ جو اُن کی خودنوشت میں شامل ہیں، ایک بڑے اعتراف سے کسی طرح کم نہیں ہیں، ان چند جملوں سے جوگی جہلمی کی زندگی کے ابتدائی برسوں اور ان کی روزوشب کی سرگرمیوں کی خبر ملتی ہے۔وہ نوجوانی سے ہی نہایت توانا اور سمجھ و شعور رکھنے والے محب وطن شاعر تھے۔ اسی طرح سید ضمیر جعفری ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب 1964-65ء کے زمانے میں ان کے والد ریٹائرمنٹ کے بعد جہلم میں گھر تعمیر کر رہے تھے، وہ مجھے اور میرے بھائی کو ایک بار ساتھ لے گئے جہاں ایک شخص (جوگی جہلمی)لوگوں کو پنجابی شاعری سنا رہا تھا۔ والد صاحب نے بتایا کہ ہمارا راج(مستری) پنجابی زبان کا شاعر ہے۔وہ شخص ہنسا اور اس نے کہا کہ اس کا نام جوگی جہلمی ہے۔ وہ ایک معروف مقامی شاعر تھا۔
جوگی جہلمی کا ایک ہی شعری مجموعہ ”مندراں“ کے نام سے1978ء میں شایع ہوا جو اس وقت مارکیٹ میں میسر نہیں ہے البتہ اس کا پرانا نسخہ کسی لائبریری یا جوگی جہلمی کے کسی چاہنے والے کے گھر میں موجود ہو گا، اس کا ٹائٹل جہلم کے معروف آرٹسٹ عزیز دہلوی نے بنایا تھا۔ تب وڈیو کا زمانہ نہیں تھا، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے بھی اتنی ترقی نہیں کی تھی،راشد مراد نے جوگی جہلمی سے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر فیس بک پر اپنی آواز میں ریکارڈ کر کے آر ایم ٹی وی لندن کی جانب سے جوگی جہلمی کی دو نظمیں ”پہاڑی“ اور ”چاننی“سامعین اور ناظرین تک پہنچائی ہیں۔ شاید وہیں سے اسلام آباد کے گلوکار، پروڈیوسر اور میوزک ڈائریکٹر شاہد راجا کو خیال آیا تو اس نے نہایت خوبصورت انداز میں جوگی جہلمی کی نظم”چاننی“ اپنی خوبصورت آواز میں ریکارڈ کر کے سی ڈی کی صورت میں میلوڈی وژن اسٹوڈیو اسلام آباد کی جانب سے مارکیٹ کی ہے۔