حمد باری تعالی ۔۔۔ خالد علیم


جو تیری حمد کو ہو خوش رقم، کہاں سے آئے
وہ روشنائی، وہ نوکِ قلم کہاں سے آئے

گناہ گار ہوں اے میرے مہربان خدا!
اگر گناہ نہ ہوں، چشمِ نم کہاں سے آئے

اگر نہ تارِ نفس کا ہو سلسلہ تجھ سے
یہ مجھ سے خاک نژادوں میں دم کہاں سے آئے

تری رضا سے علاوہ، تری عطا کے بغیر
بدن میں طاقت ِ رفتار و رَم کہاں سے آئے

ترے کرم کے ترشُح بغیر دھوپ میں بھی
ہَوا میں تازگیِ نم بہ نم کہاں سے آئے

رجوعِ خیر بھی تیرے کرم سے ممکن ہے
کرم نہ ہو تو یہ کارِ اَہم کہاں سے آئے

لرز رہا ہے مدَوّر زمیں کا سینۂ سنگ
جو تُو نہ چاہے، ثباتِ قدم کہاں سے آئے

سحاب اٹھتے ہوئے ریگِ خشکِ صحرا سے
جو تُو نہیں ہے تو پھر یم بہ یم کہاں سے آئے

ترے بغیر کسی خیر و شر کے معرکے میں
کوئی کشاکشِ دیر و حرم کہاں سے آئے

حدوث میں بھی ہے تیری صداے کُن فیَکُوں
جو یہ نہ ہو، ترا رنگِ قِدَم کہاں سے آئے

تمام حادثۂ کائنات تجھ سے ہے
ترے بغیر عناصر میں رَم کہاں سے آئے

تمام نفی و اثبات کا بھرم تجھ سے
اگر وجود نہ ہو تو عدم کہاں سے آئے

ترے ثبوتِ ازل تاب سے ہوں میں موجود
وگرنہ ہونے کا یہ کیف و کم کہاں سے آئے

چھڑا ہے تجھ سے ہی تفریق و جمع و ضرب کا ساز
اگر نہ ہو کوئی اوّل، دُوَم کہاں سے آئے

جزا سزا کا یہ سارا نظامِ کہنہ و نو
بتا رہا ہے یہ خالد کہ ہم کہاں سے آئے

Related posts

Leave a Comment