نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔ احمد حسین مجاہد

گناہگار ہوں، دہلیز پر بٹھا دیجے مگر حضور مری حاضری لگا دیجے جو مانگتے ہیں عطا کیجیے انھیں دنیا مہار ِ ناقہ مرے ہاتھ میں تھما دیجے کھڑا ہوں سر کو جھکائے میں سب سے آخر میں کسی سے یہ نہیں کہتا کہ راستہ دیجے

Read More

احمد حسین مجاہد ۔۔۔ ایک لا محدود 

ایک لا محدود  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کلائی پر بندھے اوقات ِ بے مصرف کے آلے کو تلائی کے تلے رکھا ہتھیلی گال کے نیچے کشادہ کی سرہانہ سر کے نیچے سے اٹھا کر سر پہ رکھا دونوں گھٹنے پیٹ سے جوڑے غم ِ دنیا کے دفتر کو سمیٹا راحت ِ محدود کا عادی بدن بستر پہ چھوڑا ایک لامحدود میں پہنچا جہاں ہر چیز ممکن ہے

Read More

احمد حسین مجاہد … وہ سمجھتا ہے اس کنائے کو

وہ سمجھتا ہے اس کنائے کوپُل کی حاجت نہیں ہے سائے کومیں جو کہتا ہوں کچھ نہیں ہو گاآگ میں ڈال سب کی رائے کولے کے دو چسکیاں مرے کپ سےشہد کر دے گا پھیکی چائے کوکھل کے دیتا نہیں وہ داد کبھیآگ لگ جائے اس کی ” ہائے ” کوتجھ کو دیکھا تو خود بدل لیں گےصائب الرائے اپنی رائے کومیں یہاں آخری مسافر ہوںاک نظر دیکھ لوں سرائے کو

Read More

شاہد اشرف ۔۔۔ خود کلامی

خود کلامی ۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کی دھڑکن یا کسی کی چاپ تھی میں اکیلا تو نہیں تھا میری آنکھوں میں بہت سے سرخ ڈورے تیرتے تھے اور تکیے پر بنے پھولوں کی رنگت زرد ہوتی جا رہی تھی میری خواہش میں کوئی سلوٹ نہیں میں اگر چہ سخت افسردہ تھا لیکن مسکراہٹ آئنے میں منتظر تھی خود سے ملنا بھی خوشی کا واقعہ تھا میں بدلتا جا رہا تھا اک نئے سانچے میں ڈھلتا جا رہا تھا اور دنیاوی کمی یا پھر اضافے سےپریشاں بھی نہیں تھا جیسے سب کچھ نارمل…

Read More

شاہد اشرف ۔۔۔ خوبصورت ہیں زمین و آسماں ترتیب سے

خوبصورت ہیں زمین و آسماں ترتیب سےحُسنِ فطرت نے بنایا ہے جہاں ترتیب سےاک نئے انداز سے گھر کو سجانا ہے مجھےسوچتا ہوں خود کو رکھنا ہے کہاں ترتیب سےاِس سے آگے قافلے کا کچھ پتا چلتا نہیںدشت تک جاتے ہیں قدموں کے نشاں ترتیب سےوہ مرا کردار منہا کر رہا ہے بار باراور سناتا ہی نہیں ہے داستاں ترتیب سےایک خود رو پھول کی صورت کہیں مہکا ہواجھومتا ہوں جھاڑیوں کے درمیاں ترتیب سےاس سے پہلے تو درختوں کی قطاریں تھیں یہاںکاٹ کر جن کو بنائے ہیں مکاں ترتیب…

Read More

نعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔ شاہد اشرف

شادمانی میں اک آنسو بھی نکل آیا ہے روضۂ شاہ پہ بدّو بھی نکل آیا ہے ! ایک بازو سے ٹکا رکّھا تھا سر جالی پر رشک سے دوسرا بازو بھی نکل آیا ہے محوِ پرواز پرندے ہیں مدینے کی طرف دیکھ کر دشت میں آہو بھی نکل آیا ہے اتنی زرخیز زمیں ہے کہ ثنا کرتے ہوئے اک نئی نعت کا پہلو بھی نکل آیا ہے ہر فصاحت تھی فقط اہلِ عرب کو زیبا نعت میں صاحبِ اُردو بھی نکل آیا ہے دیکھ کر مجھ کو مرے دل نے…

Read More