ارشاد نیازی … سوزِ دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر

سوزِ دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر ہر شاخ رکھ رہی ہے گْلِ تر نکال کر لائے حسین آخری لشکر نکال کر خیمے سے تشنہ لب علی اصغر نکال کر تھوڑے ہی دن ہے شاخِ شجر پر یہ نغمگی اڑجائیں گے یہ لوگ نئے پر نکال کر اہلِ نظر کے سامنے رکھتا ہوں دیکھ لیں لایا ہوں مشتِ خاک سے گوہر نکال کر یوں بھی ہو مجھ کو چشمِ فنا ڈھونڈتی پھرے رکھ دوں میں روح جسم سے باہر نکال کر اس داستاں میں اور تو کچھ بھی نیا…

Read More

ارشاد نیازی ۔۔۔ اذیتوں کا نیا سلسلہ تو ہونا تھا

اذیتوں کا نیا سلسلہ تو ہونا تھا کچھ اس لیے بھی تجھے اب جدا تو ہونا تھا کہ پہلی بار سفر اور وہ بھی تنہا سفر کہ پاش پاش مرا حوصلہ تو ہونا تھا جب ایک عمر ہوئی تیرگی نگلتے ہوئے مرا چراغ سے اب سامنا تو ہونا تھا عجیب شخص ہے، عجلت میں کاٹ بیٹھا ہے وگرنہ پیڑ تھا، آخر ہرا تو ہونا تھا ہمارے بیچ محبت شدید تھی ارشاد ہمارے بیچ بہت فاصلہ تو ہونا تھا

Read More

نائیلہ راٹھور ۔۔۔ اداسی کے رنگ

اداسی کے رنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیال کی چادر پر اداس جذبوں کے دھاگے سے کاڑھی نظم نگاہوں کے گوشے بھگو دیتی ہے احساس کی چبھن پوروں پر محسوس کر کے روح بھی ژولیدہ لمحوں کے لمس سے افسردہ ہو جاتی ہے تخئیل کے کاغذ پر آنسوؤں کے نشان ستاروں کی مانند دمکتے ہیں من کے اندھیرے آنگن میں اجالا جاگنے لگتا ہے محبت خوابیدہ آنکھوں سے یادوںکے کینوس پر اداسی کے پھول کاڑھتی ہے فضا میں گھمبیر تنہائی کی چاپ اور خامشی کی دستک کا الوہی فسوں بکھرا ہے ”اداسی کے…

Read More

نائیلہ راٹھور ۔۔۔ کچھ بھی تو زندگانی میں ویسا نہیں رہا

کچھ بھی تو زندگانی میں ویسا نہیں رہا تھا مان جس پہ اب وہی رشتہ نہیں رہا خوابوں نے نیند میں کئی رستے بنا لیے دل تک جو جا سکے وہی رستہ نہیں رہا معدوم کر دیا ہے سبھی کچھ تو وقت نے افسوس کوئی نقشِ گزشتہ نہیں رہا رکھتا ہے بغض دل میں وہ یہ جانتی ہوں میں پہلے سا مجھ سے گرچہ کبیدہ نہیں رہا آئے گا لوٹ کر نہ پکاریں گے ہم اسے سب کچھ رہا وہیں ترا وعدہ نہیں رہا

Read More

فائق ترابی ۔۔۔ سنگِ تہمت کا ہدف میرا گریبان بنے

سنگِ تہمت کا ہدف میرا گریبان بنے! پھر ترے گاؤں کی مٹی سے نمکدان بنے! اب تو خوابوں کے تعطل کا زمانہ آیا اب تو مشکل سے ملاقات کا امکان بنے ہر نیا شخص نیا زخم لگاتا جائے اس قدر پھول تو مل جائیں کہ گلدان بنے اپنے اجداد کی پہچان نہیں تھی جن کو آج وہ لوگ مرے شہر کی پہچان بنے پہلے اک اسمِ مُبیں لوحِ سخن پر اُترا بعد میں بحریں بنیں، بعد میں اوزان بنے میری تصویر بناتے ہو مگر یاد رہے آنکھ حیران بنے، زلف…

Read More

صفدر صدیق رضی ۔۔۔ نظم

نظم ۔۔۔۔ کسی کے ہونٹ تجھ سے ہیں کسی کے گال تجھ سے ہیں کسی کا قدّوقامت اور خدّو خال تجھ سے ہیں مجھے سب سے محبت ہے وہ ہے جس کی نظر تجھ سی وہ جس کا رنگ تجھ سا ہے وہ آنکھیں جس کی تجھ جیسی وہ جس کے بال تجھ سے ہیں مجھے سب سے محبت ہے جھلک تیری ہے جس جس شخص کے عہدِجوانی میں وہ جس کے دن ہیں تجھ سے اورماہ وسال تجھ سے ہیں مجھے سب سے محبت ہے وہ جس کا لہجہ…

Read More

اوصاف شیخ … دمکتا رخ لیے جو کر و فر سے نکلا ہوں

دمکتا رخ لیے جو کر و فر سے نکلا ہوں میں بچ کے معرکۂ خیر و شر سے نکلا ہوں میں پھونک پھونک کے رکھتے ہوئے قدم گیا تھا میں رقص کرتے ہوئے اس نگر سے نکلا ہوں ہوں گرد باد کی صورت جو ارد گرد ترے یہ جان لے تری گردِ سفر سے نکلا ہوں وہ جس کے سائے میں تم نے دبا دیا تھا مجھے میں آج پھر اسی بوڑھے شجر سے نکلا ہوں میں تیرے ساتھ ازل سے نہیں ہوں سچ کہہ دوں ترے سفر میں کسی…

Read More

اوصاف شیخ ۔۔۔ ساتھ سورج کے اب کھڑا ہوں میں

ساتھ سورج کے اب کھڑا ہوں میں اپنے سائے سے تو بڑا ہوں میں مجھ کو حیرت سے دیکھنے والو! ہجر کی دھوپ میں سڑا ہوں میں ڈھنگ کا خواب دیکھنے کے لیے عمر سے نیند میں پڑا ہوں میں اس کی منزل تو ہے ندی کے پار اب میں سمجھا فقط گھڑا ہوں میں خود سے اوصاف جنگ ہے میری خود سے ہی عمر بھر لڑا ہوں میں

Read More

تاثیر نقوی ۔۔۔ سکوت ِ شب میں جب دیکھوں تو ہر سو تو نظر آئے

سکوت ِ شب میں جب دیکھوں تو ہر سو تو نظر آئے کہ جیسے میرے آنگن کی طرف شمس و قمر آئے یہاں تاریکیوں کا راج ہے جس سمت بھی دیکھوں گْلوں کی آرزو صحن ِگلستاں میں سحر آئے کرو گے کام جو اچھے ملے گا اجر بھی اْس کا وسیلہ ان کا ہو تو پھر شفاعت کی خبر آئے عمل ہوتا نہیں لیکن نمائش ساتھ چلتی ہے دعا یہ ہے کہ اپنا بھی کوئی تو راہبر آئے یہاں پر نفسانفسی کا عجب عالم نظر آیا کسی جانب سے تو…

Read More

وسیم عباس ۔۔۔ فطرت میں جدا زہر زمانے سے ملا ہے

فطرت میں جدا زہر زمانے سے ملا ہے اک سانپ مجھے ایسا خزانے سے ملا ہے منزل کے نشاں آبلہ پائی سے کھلے ہیں چھائوں کا پتا دھوپ میں آنے سے ملا ہے جینے کے سبب جتنے ہیں، سامان ہے جتنا سب احمدِ مرسلؐ کے گھرانے سے ملا ہے دنیا کے کسی در سے میسر نہیں آیا جو فیض مجھے شعر کمانے سے ملاہے برسوں سے جسے ڈھونڈ رہا تھا میں وہ چہرہ مجھ کو تری تصویر بنانے سے ملا ہے قدموں میں مرے پھینک دی تلوار جہاں نے جب…

Read More