اک تماشا ہے دل کی حالت کا ایک حالات کا تماشا ہے
Read MoreDay: اکتوبر 14، 2025
احمد فراز
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر پاؤں بھی ہیں شل، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا
Read Moreادا جعفری
امید کا گھروندا پل میں گرا دیا ہے تجھ کو بھی کیا کسی نے دل سے بھلا دیا ہے
Read Moreجوش ملیح آبادی ۔۔۔ پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم
جوشؔ کی یہ غزل عشقِ بے خود، خرد شکنی، اور وجودی بے چینی کا آئینہ ہے، جہاں دل کی ہر دھڑکن میں ایک انقلاب انگڑائی لیتا ہے۔
الفاظ میں وہی آتش، وہی سیال تپش ہے جو جوش کے لہجے کو شعلۂ گفتار بنا دیتی ہے۔
شاعر، سرِ تسلیم خم کرنے میں بھی عارفانہ جرأت کا اعلان کر رہا ہے، گویا خاک میں بھی اکسیرِ حیات ملائی جا رہی ہو۔
زندگی کی آسائشوں سے بیزاری، اور دیوانگی کو سعادت جاننا، رندیِ عارفانہ کا نادر مظہر ہے۔
یہ غزل نہیں، حیات و کائنات کے طلسمات پر سوال اٹھاتی ہوئی ایک فکری زنجیر ہے، جس کی ہر کڑی شعور و وجدان سے پیوستہ ہے۔
نجیب احمد
آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا ایک دن رات ڈھلے یوم حساب آئے گا
Read Moreبشیر الدین احمد دہلوی
کام کرنے کے سلیقے سے ہم آگاہ نہیں اور کیا آتا ہے بس بے ہنری آتی ہے
Read More