اک اجاڑ بستی کا اک اداس جادہ تھا اور بادیہ پیما ایک مستِ بادہ تھا حسنِ کم نگاہی پر عمر بھر نہ کھل پایا دل کی بند مٹھی میں ایک حرفِ سادہ تھا عمر بھر کے غم لے کے چشم نم اُمڈ آئے وجہ ِ گرم بازاری اک غلام زادہ تھا ہرمحل پہ سایہ تھا کچھ دراز پلکوں کا خواب خواب آنکھوں میں ایک شاہ زادہ تھا بادشاہ کے گھر تک آنچ کس طرح آتی اس بساط پر باقی اب تک اک پیادہ تھا صبر کا علم اب تک سربلند…
Read MoreCategory: آج کی غزل
قمر جلالوی ۔۔۔ اگر ہم سے خوشی کے دن بھی وہ گھبرائے جاتے ہیں
انھیں کیوں پھول دشمن عید میں پہنائے جاتے ہیں وہ شاخِ گل کی صورت ناز سے بل کھائے جاتے ہیں اگر ہم سے خوشی کے دن بھی وہ گھبرائے جاتے ہیں تو کیا اب عید ملنے کو فرشتے آئے جاتے ہیں رقیبوں سے نہ ملیے عید اتنی گرم جوشی سے تمھارے پھول سے رخ پر پسینے آئے جاتے ہیں وہ ہنس کرکہہ رہے ہیں مجھ سے سن کر غیر کے شکوے یہ کب کب کے فسانے عید میں دوہرائے جاتے ہیں نہ چھیڑ اتنا انھیں اے وعدۂ شب کی پشیمانی…
Read Moreآفتاب اقبال شمیم ۔۔۔ گھر کو اتنا بھی نہیں تاریک رکھنا چاہئے
گھر کو اتنا بھی نہیں تاریک رکھنا چاہئے وا ذرا سا روزنِ تشکیک رکھنا چاہئے ہے اُسی کے بھید سے حاضر میں غائب کی نمود دُور کو ہر حال میں نزدیک رکھنا چاہئے در پئے آزار ہے سنجیدگی کا پیشہ ور پاس اپنے دشنۂ تضحیک رکھنا چاہئے پردۂ حیرت میں رہنا اُس کا منشا ہی سہی پر اُسے پردہ ذرا باریک رکھنا چاہئے خود بخود آ جائے گا کعبہ جبیں کی سیدھ میں بس ذرا اندر کا قبلہ ٹھیک رکھنا چاہئے
Read Moreرضی اختر شوق ۔۔۔ کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں
کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں کوئی تو سر کشیدہ ہو، اتنے سروں کے درمیاں ایک طرف میں جاں بہ لب ، تارِ نَفس شکستنی بحث چھڑی ہوئی اُدھر، چارہ گروں کے درمیاں ہاتھ لئے ہیں ہاتھ میں، پھر بھی نظر ہے گھات میں ہمسفروں کی خیر ہو، ہمسفروں کے درمیاں اُسکا لکھا کچھ اور تھا، میرا کہا کچھ اور ہے بات بدل بدل گئی، نامہ بروں کے درمیاں جامِ صفال و جامِ جم، کچھ بھی تو ہم نہ بن سکے اور بکھر بکھر گئے ، کُوزہ گروں…
Read Moreخالد علیم ۔۔۔ نواحِ شام کی اے سرد خو ہوائے فراغ
نواحِ شام کی اے سرد خو ہوائے فراغ جلا رہا ہوں میں اپنے لہو سے دل کا چراغ اسیرِ حلقہء مہتاب رہنا چاہتا ہوں یہ رات ڈھونڈ نہ لائے مری سحر کا سراغ ستارے آنکھ کے منظر پہ کم ٹھہرتے ہیں ہمارے ہم سخنوں کا ہے آسماں پہ دماغ کچھ اور ڈالیے ہم تشنگاں کو ضبط کی خو درک نہ جائے صراحی‘ چھلک نہ جائے ایاغ چمک اٹھے ہیں تماشائے صد وصال سے بھی ہمارے دامنِ دل پر کسی کے ہجر کے داغ نژادِ خاک سے ہوں‘ نقشِ آسماں تو…
Read Moreآصف شفیع ۔۔۔ پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے
پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے جس کا نشہ ابھی اتارا ہے راز یہ دل پہ آشکارا ہے تو محبت کا استعارا ہے اک طرف ہجر کی مسافت ہے اک طرف درد کا کنارا ہے کس طرح میں جدا کروں تجھ کو تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے دلِ بےتاب روٹھ مت جانا تو مرا آخری سہارا ہے زندگانی کا پوچھتے ہو کیا ایک اڑتا ہوا غبارہ ہے پھر جنوں کی نمود ہے مجھ میں پھر مجھے دشت نے پکارا ہے بازئ عشق میں نہیںکھلتا کون جیتا ہے کون…
Read Moreسعادت یار خان رنگین …. تا حشر رہے یہ داغ دل کا
تا حشر رہے یہ داغ دل کا یارب نہ بجھے چراغ دل کا ہم سے بھی تنک مزاج ہے یہ پاتے ہی نہیں دماغ دل کا یاں آتشِ عشق سے شب و روز دہکے ہے پڑا ایاغ دل کا اس رشکِ چمن کی یاد میں ہے شاداب ہمیشہ باغ دل کا جینے کا مزا اسی کو ہے بس جس شخص کو ہو فراغ دل کا ہے بادۂ غم سے تیرے دن رات لبریز یہاں ایاغ دل کا معلوم نہیں کسی کو رنگیں دے کون ہمیں سراغ دل کا
Read Moreآفتاب اقبال شمیم ۔۔۔ پنجوں کے بل کھڑے ہوئے شب کی چٹان پر
پنجوں کے بل کھڑے ہوئے شب کی چٹان پر ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر برسوں درونِ سینہ سلگنا ہے پھر ہمیں لگتا ہے قفلِ حبس ہوا کے مکان پر اک دھاڑ ہے کہ چاروں طرف سے سنائی دے گردابِ چشم بن گئیں آنکھیں مچان پر موجود بھی کہیں نہ کہیں التوا میں ہے جو ہے نشان پر وہ نہیں ہے نشان پر اس میں کمال اس کی خبر سازیوں کا ہے کھاتا ہوں میں فریب جو سچ کے گمان پر سرکش کو نصف عمر کا ہو لینے دیجئے…
Read Moreحسیب الحسن ۔۔۔ موتیا آنکھوں میں اور چاندی بھلے بالوں میں ہے
موتیا آنکھوں میں اور چاندی بھلے بالوں میں ہے پھر بھی تیرے مبتلا کا نام دل والوں میں ہے زندگی کو کاٹتے ہیں جیل کے مانند ہم موت کی پرلطف ٹھمری کا اثر تالوں میں ہے نفسیاتی مسئلے سمجھو اگر شوقین ہو وہ کبوتر خوش نہیں جو سرمئی جالوں میں ہے جنگ میں آ کر تمہارے جنگجو پر یہ کھلا گھاؤ جو تیری نظر کا ہے کہاں بھالوں میں ہے اے سمندر معذرت میں اس لئے ڈرتا نہیں تجھ سے بھی ظالم بھنور اْن سانولے گالوں میں ہے اک تمہارا…
Read Moreحسن پرویز سید ۔۔۔ خوف کے کھُلتے ہیں ہر سو در ہی در
خوف کے کھُلتے ہیں ہر سو در ہی در جب خدا کا ڈر نہ ہو تو ڈر ہی ڈر کون ظاہر ہو گیا تج کر حجاب ہر طرف ہیں عاشقوں کے سر ہی سر کرتے ہیں بے دخل، گاؤں کے مکیں اور بنا لیتے ہیں اپنے گھر ہی گھر کوئی خوشیاں لے گیا کر کے شکار شوق کے ٹوٹے پڑے ہیں پر ہی پر اب ہو ظاہر لازمی، غیبی مدد ہو گیا دنیا پہ طاری شر ہی شر اے زمانے دو گھڑی کے عیش کا سیّدِ بے بس پہ احساں…
Read More