خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں ہماری ہو گی مگر داستاں کہیں نہ کہیں کہاں کہاں لیے پھرتی ہے اک خیال کی رو ہمارے دل سا بھی ہو گا سماں کہیں نہ کہیں ضرور ملتا رہے گا مٹانے والوں کو ہمارے بعد ہمارا نشاں کہیں نہ کہیں شجر شجر پہ یہ سرگوشیاں ہیں پتوں کی کہ فصلِ گل میں بھی ہو گی خزاں کہیں نہ کہیں لہو جو دل کا جلائے ہوئے ہے کیا شے ہے؟ اگر ہے آگ تو ہو گا دھواں کہیں نہ کہیں
Read MoreCategory: آج کی غزل
زبیر فاروق ۔۔۔ اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا
اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا غیر نے جو کہا سنا ہو گا کچھ نہ کچھ سوچ کر ہی پلٹا ہے گھر سے کچھ ٹھان کر چلا ہو گا آنے پہ جس کے ہو گا ہنگامہ وہ نہیں آیا پھر تو کیا ہو گا اس پہ سکتہ ہوا ہے جو طاری کچھ نہ کچھ تو اُسے دِکھا ہو گا سارے ششدر ہیں دیکھ کر اُن کو کام ایسا کوئی ہُوا ہو گا ٹوٹے دل سے نکل گیا گھر سے کیا خبر وہ کہاں گیا ہو گا کرب…
Read Moreعباس علی شاہ ثاقب ۔۔۔۔ ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو
ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو جہالت کی یہاں افراط دیکھو فسادی ہاتھ میں قانون سازی علم بردارِ حق ، بُقراط دیکھو یہ کس برتے پہ اِتراتے پِھرے ہیں خمیدہ طرز کے خطاط دیکھو تجھے گر شوق ہے کچھ دیکھنے کا گریباں میں چھپی اغلاط دیکھو وہ جس نے آستیں میں سانپ پالے ہُوا ہے کس قدر محتاط دیکھو بھروسہ زہرِ قاتل ہے جہاں میں یہی ہے سب کا استنباط دیکھو
Read Moreفرح رضوی ۔۔۔ حوصلہ نہیں دو گے
حوصلہ نہیں دو گے کیا دعانہیں دو گے قافلہ بڑھا لیں ہم تم صدا نہیں دو گے مضمحل مسافر کو آسرا نہیں دو گے اس گلی میں آنا ہے راستہ نہیں دو گے چہرگی مِٹا کر بھی آئنہ نہیں دو گے منتظِر پلٹ آئے واسطہ نہیں دو گے کیا جلے دِیا اور آگ جب ہوا نہیں دو گے
Read Moreمحمد اشرف کمال ۔۔۔ میری آنکھوں میں کہاں کوئی مکاں رہتا ہے
میری آنکھوں میں کہاں کوئی مکاں رہتا ہے وہی رہنے کی جگہ ہے تو جہاں رہتا ہے دیکھنے سے جسے بینائی چمک اٹھتی ہے ہر جگہ ڈھونڈ لیا جانے کہاں رہتا ہے جس قدر تم مری آنکھوں کو بھلے لگتے ہو اس قدر کوئی حسیں اور کہاں رہتا ہے وہ مہکتی ہوئی خوشبو کی طرح ہے دل میں جس قدر اس کو چھپاؤں وہ عیاں رہتا ہے اپنے حالات کسی طور بدلتے ہی نہیں درد دن رات رگ وپے میں رواں رہتا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے رستے بھی بھٹکتے ہیں جہاں…
Read Moreشہاب اللہ شہاب ۔۔۔ وہ جو بچھڑا تو کہیں بھی مری شنوائی نہ تھی
وہ جو بچھڑا تو کہیں بھی مری شنوائی نہ تھی اس کی پھر بعد میں کوئی بھی خبر آئی نہ تھی اس کا گھر تو تھا مرے گھر سے بلندی پہ بہت اس کی سوچوں میں مگر کوئی بھی اُنچائی نہ تھی رات ہم راز تھی آتی تھی ہر اک چیز نظر دن جو روشن ہوا پھر آنکھ میں بینائی نہ تھی مہرباں ان پہ اگرچہ رہا مہ تاب فلک روشنی میرے ستاروں کی بھی ہرجائی نہ تھی عمر بھر چلتے رہے ہاتھ میں ہم ہاتھ لیے سچ تو یہ…
Read Moreاصغر علی بلوچ ۔۔۔ لہلہاتے کھیت خوشوں سے بھرے
لہلہاتے کھیت خوشوں سے بھرے بارشوں سے لوگ خدشوں سے بھرے جھنگ کے بیلے ہیں رانجھوں سے تہی اور دریا ان کی لاشوں سے بھرے سیر چشمی دید بِن ممکن نہیں پیٹ کب روٹی کی باتوں سے بھرے روح اپنی دفتروں میں قید ہے سانس اپنے سرخ گرہوں سے بھرے علم و حکمت سے ہیں خالی حافظے شیلف ہیں گرچہ کتابوں سے بھرے منہدم آثار بھی آباد ہیں خالی پنجر بھی ہیں سانسوں سے بھرے
Read Moreباقی احمد پوری ۔۔۔ سرد رت کی اداس تنہائی
سرد رت کی اداس تنہائی بے سبب رنج ، یاس، تنہائی اور کوئی نہیں ہے کوئی نہیں صرف ہے غم شناس تنہائی زرد موسم میں خوب پھلتے ہیں پیلی سرسوں، کپاس، تنہائی سالِ نو میں عروج پر ہوں گے ظلم ، خوف و ہراس ، تنہائی یاد آتی ہیں جھیل سی آنکھیں بڑھتی جاتی ہے پیاس تنہائی گرتے پتے شجر سے کہتے ہیں اب ہے تیرا لباس تنہائی دور جاتی نہیں مرے دل سے ہے یہیں آس پاس تنہائی جانے کب سے لگائے بیٹھی ہے تیرے ملنے کی آس ،…
Read Moreسعید راجہ ۔۔۔ جب ترے دل کی پناہوں میں سمٹ کر دیکھوں
جب ترے دل کی پناہوں میں سمٹ کر دیکھوں چاہتا ہوں کہ تجھے دنیا سے کٹ کر دیکھوں منتظر ہو گا سرِ راہِ تمنا کوئی میں اگر دید کی دنیاؤں سے ہٹ کر دیکھوں دل اسی طور لگاتا رہا آواز اگر عین ممکن ہے کسی روز پلٹ کر دیکھوں کچھ رعایت نہ کوئی رحم نہ جانبداری تم جو چاہو تو میں خود سے بھی نپٹ کر دیکھوں میرے ہونے کی کوئی اس میں نشانی ہو گی ایک دن وقت کی زنبیل الٹ کر دیکھوں اے مرے عکس! تو آئینے سے…
Read Moreقمر نیاز ۔۔۔ کہ بے گھری میں ٹھکانہ دکھا کے مار دیا
کہ بے گھری میں ٹھکانہ دکھا کے مار دیا خلا نورد کو سبزہ دکھا کے مار دیا مواحدوں سے لڑائی نہیں محبت تھی روایتوں کا وسیلہ دکھا کے مار دیا کسی نے جھیل میں رکھا قدم تو مکتی ملی شعاعِ حسن نے دریا دکھا کے مار دیا جمالِ یار کے رستے پہ چل رہا تھا میں جمالِ یار نے رستہ دکھا کے مار دیا کسی کی کشتی ڈبو دی ڈبونے والے نے کسی کو تو نے سفینہ دکھا کے مار دیا تمھیں تو وصل سے بخشی ہے زندگی اس نے…
Read More