جلیل عالی

ہوائے ہجر نے کیسا کمال کر دیا ہے پرے غبارِ غمِ ماہ و سال کر دیا ہے یہ اتفاق نہیں، اہتمام ہے اُس کا جلال کو بھی جو جزوِ جمال کر دیا ہے بہشتِ شوق پہ بارود بارشوں کے ہیں دن سو حرف حرف کو شعلہ مثال کر دیا ہے دفاعِ شہرِ تمنا کی آخری حد پر بموں کے سامنے سینوں کو ڈھال کر دیا ہے کیا ہے نذرِ جہاں ہم نے جو سرِ قرطاس یہ نقدِ حرف نہیں دل نکال کر دیا ہے

Read More