پت جھڑ میں کِھلتے گلاب ۔۔۔۔۔ جلیل عالی

پت جھڑ میں کِھلتے گلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شِفا نام تیرا تری ہر ہُمک۔جانِ لختِ جگر! زندگی کی گُمک ،فرح و آرام میرا شب و روز کی سر گرانی، غبارِ غمِ رایگانی جھٹکنے کی رَو میں یہی کام میرا کہ زنجیرِ معمول کو توڑ کر ، سوچ کے ہر سروکار کو چھوڑ کر میں ترے پاس آئوں تجھے پھول سا جھُولنے سے اُٹھائوں ترے ساتھ معصوم و بے ربط باتیں کروں اپنے اندر کا بالک جگائوں تری موہنی ، مست مُسکان کی چاندنی میں جِیئوں وقت کی دُھوپ سامانیاں ، سب پریشانیاں…

Read More

جلیل عالی…. شکستگی سے سفر کے ہنر نکالتے ہیں

شکستگی سے سفر کے ہنر نکالتے ہیں کہ خاکِ خواب سے خوابِ دگر نکالتے ہیں ہمارے حوصلے دیکھو قدم قدم کیسے تمہارے قامتِ قسوت سے سر نکالتے ہیں گرا گرا کے وہ بارود ہار جائے گا ہم اک نگاہ میں ملبے سے گھر نکالتے ہیں کس اوجِ شوق سے زیرِ زمیں اترتے ہیں اور اپنی خاک سے شمس و قمر نکالتے ہیں متاعِ اہلِ وفا اک یہی سر و سودا ہو جس طرح کی بھی دیوار ، در نکالتے ہیں یہی قلم کی ہے رَو بجھ نہ پائے لفظ کی…

Read More

جلیل عالی

ہوائے ہجر نے کیسا کمال کر دیا ہے پرے غبارِ غمِ ماہ و سال کر دیا ہے یہ اتفاق نہیں، اہتمام ہے اُس کا جلال کو بھی جو جزوِ جمال کر دیا ہے بہشتِ شوق پہ بارود بارشوں کے ہیں دن سو حرف حرف کو شعلہ مثال کر دیا ہے دفاعِ شہرِ تمنا کی آخری حد پر بموں کے سامنے سینوں کو ڈھال کر دیا ہے کیا ہے نذرِ جہاں ہم نے جو سرِ قرطاس یہ نقدِ حرف نہیں دل نکال کر دیا ہے

Read More